اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب (1)
’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘اور ’’ریاست اور حکومت‘‘کے عنوانات سے جاوید غامدی صاحب کے دو مضامین روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا 22جنوری2015ء کو اور دوسرا 21فروری 2015ء کو شائع ہوا۔پہلا مضمون اگر محض الجھاؤ کا شکا ر تھا تو اس کی وضاحت میں لکھا گیا دوسرا مضمون مزید الجھاؤ کا شکار ہو گیا۔وجہ اس الجھاؤ کی بظاہر یہی آتی ہے کہ غامدی صاحب اپنے پہلے مضمون کے آغازمیں سیکولرازم کو ہلکے پھلکے سے الفاظ میں ’’سخت سست‘‘کہہ کر دھم سے اسلامی فکر کی ترجمانی کے پلیٹ فارم پر کو د پڑتے ہیں۔یہاں کھڑے ہو کر وہ جھنڈاتو اُٹھاتے ہیں اسلامی فکر کا اور ترجمانی کرتے ہیں سیکولرازم کی پھر ریاست اور حکومت کے حوالے سے ان کی اسلامی فکر بعینہٖ اُنہی نتائج تک پہنچا دیتی ہے جن نتائج تک سیکولرازم پہنچانا چاہتا ہے۔یہ طرز سرے سے علمی بحث کا ہے ہی نہیں۔سیکولرازم اور اسلام کے تصورِّ سیاست وریاست کو علمی بحث کا موضوع اسی شکل میں بنایا جا سکتا ہے جب سیکولرازم کے تصورات کو اسلام کے سیاسی تصورات کے مقابل رکھ کر ایک دوسرے سے موازنہ کیا جائے اور کسی ایک کے افکار کو ریاست کے قیام اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے حوالے سے آفاقی ثابت کیا جائے۔یعنی کونسی فکر اپنے جوہر میں ہمیشگی کی حامل اور ہر جغرافیے اور ہر دور میں قابل عمل ہو سکتی ہے۔علمی بحث کا یہ طرز نہیں ہے کہ کوئی اسلامی فکر کو انہی نتائج تک پہنچائے جن نتائج تک اسلامی فکر کا حریف سیکولرازم پہنچانا چاہتا ہے۔اور پھر آخر میں یہ دعویٰ بھی برقرار رہے کہ یہ نتیجہ اسلامی فکر کو نچوڑہے۔
ایک دوسرا طریقہ کار بھی عین اور اعلیٰ درجے کی علمی بحث ہے۔مثلاً اجتہادی ذہن کی سطح کے اہلِ فکر و دانش موجودہ جمود کی حالت کو توڑتے ہوئے اجتہاد کے دروازے کھولیں اور دورِ جدید کے تقاضوں کی روشنی میں اُن مسائل کا حل تلاش کریں جو اُمت ِ مسلمہ کو درپیش ہیں،مسائل کی نشان دہی کی جائے اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں اُن کے حل پیش کیے جائیں۔پھر وقت کے دیگر علمائے اجتہاد اور جمہورپر چھوڑ دیا جائے کہ انھیں کن دلائل کی بنیاد پر قبول عام ملتا ہے یا وہ رد کر دیے جاتے ہیں۔ظاہر ہے یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ اجتہاد اُنہی مسائل و معاملات کے بارے میں کیا جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح احکامات موجود نہ ہوں۔
اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے تو قرآن و سنت میں واضح احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر بنی کریم ؐ نے خود ریاست قائم کر کے دکھائی اور ان کے بعد تک وہ ریاست انہی بنیادوں پر قائم رہ کر ایک خاص مد ت تک چلتی رہی۔
لہٰذا اسلامی ریاست کے قیام کے احکامات کے حوالے سے تو کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں۔غامدی صاحب نہ تو اس دعوے کا ذمہ اُٹھاتے ہیں کہ اس حوالے سے بھی وہ اجتہاد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔نہ وہ ان احکامات کے بارے میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان احکامات کی اب تک کی جانے والی توضیح و تشریح صحیح نہیں تھی اور اس کی صحیح شکل یہ ہے یا یہ ہونی چاہیے۔نہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جمہور کی رائے سے اختلاف کر رہے ہیں اور انھیں فلاں وجہ سے اس کی ضرورت پیش آئی۔نہ ہی وہ اپنی کسی تشریح کو ماضی کی تشریحات سے مختلف اور نئی کہہ کر پیش کرتے ہیں۔اس کے برعکس وہ ریاست کے قیام کے بارے میں طے شدہ امور سے انحراف کرتے ہوئے عجیب سے انداز میں اس طرح کے الفاظ استعمال ہیں کہ ’’اس خیال کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے‘‘،’’یہ تو اسلامی شریعت کا حکم ہی نہیں ہے، جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہوں‘‘، ’’خلافت کوئی دینی اصطلاح ہی نہیں ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے‘‘۔وغیرہ وغیرہ وہ اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پیش کی جانے والی اپنی کسی فکر کو مختلف یا نئی کہنے کی بجائے ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے جو کچھ انہوں نے کہا یا لکھا وہ پہلے ہی سے اسی طرح اور اسی معنی و مفہوم کے ساتھ تسلیم شدہ چلا آرہا ہے۔وہ اپنی توضیح و تشریح کو نئی تو کیا سرے سے ’’اپنی‘‘ماننے کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما ہی یہ رکھا ہے۔
قرآن و حدیث کی جس انوکھی اور مختلف تشریح سے وہ علمائے وقت اور اہل فکر و دانش کو حیران و پریشان کر رہے ہیں اُس کے بارے میں دوسروں کے رویے کو وہ یا تو ’’تجاہلِ عارفانہ‘‘کہتے ہیں یا اُن کا شکوہ ہے کہ لوگ’’سخن شناس‘‘تو خود نہیں ہیں لیکن اپنی اسی خطا کو ماننے کی بجائے الٹا انہی کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔ (’’سخن شناس نہ ای دِلبرا خطا ایں جاست‘‘)۔گویا لوگ اپنی غلطی کو ان کی غلطی بنا رہے ہیں۔کیا کہنے ہیں!
قومی ریاست کے وجود میں آنے، نوآبادیاتی نظام کے ذریعے مغرب کی سیاسی شقافتی یلغار اور اُمت کا شیرازہ بکھرنے اور مسلم خطے کی سیاسی وحدت (جیسی کیسی بھی وہ تھی)کے ٹوٹ جانے کے بعد مسلم اہلِ فکرو دانش کے لیے جائزے کا موضوع تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد قومی ریاست کے وجود نے کس طرح اُمتِ مسلمہ کے سیاسی سماجی وجود کو نقصان پہنچایا اور اب اس کی تلافی کس طرح کی جا سکتی ہے اور حقیقی بنیادوں پر اسلامی ریاست کس طرح وجود میں آسکتی ہے نہ کہ ا س کے برعکس اسلامی فکر کو سیکولرازم کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے ،قومی ریاست کی بقاء کی کوشش میں مسلم اُمت کو یکجا کرنے والی قرآنی تعلیمات کے حوالے سے ایسی تشریحات کی جائیں کہ’’ قرآن و حدیث میں تو سرے سے ان کا ذکر ہی نہیں ہے ‘‘اور ایسی کوششوں کا نام بھی عین اسلام رکھ دیا جائے۔
اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے جس ’’بیانیے‘‘کی ضرورت ہے اس کے مباحث تو یہ ہونے چاہیں:قومی ریاست کے جدید تصور نے مسلمان حکمرانوں کو وسیع ترا سلامی حکومت کے قیام سے روکا ہوا ہے اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ مغربی طرز جمہوریت کس حدتک اسلام سے قریب اور کس حد تک اس سے مختلف ہے؟جدید ریاست کی پارلیمنٹ کس حد تک اسلامی مجلس شوریٰ کی ضرورت کو پورا کرتی ہے؟اگر اجتہاد پارلیمنٹ نے کرنا ہو تو اس پارلیمنٹ کے ارکان کی اہلیت کیا ہونی چاہیے؟کیا موجودہ ووٹنگ سسٹم اسلامی معاشرے میں اہل الرائے کی شرط کو پورا کرتا ہے؟ووٹ کا طریقہ کار اسلام کے تصور بیعت کے ساتھ کس قدر مطابقت رکھتا ہے؟کیا ووٹ دینامحض رائے کا اظہار ہے یا اپنے اندار اطاعت کی تاثیر بھی لیے ہوئے ہے؟کیا موجودہ طریق انتخاب کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کو پارلمینٹ سے باہر رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟موجودہ حلقہ جاتی انتخابات میں ایک اُمیدوار کن مقاصد کے تحت کروڑوں روپے خرچ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے؟سیاست کو بطور پیشہ اختیار کرنے والا طبقہ کس طرح کروڑوں اربوں روپے کمالیتا ہے اور دوسری جانب غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزارنے والا طبقہ کیوں روز بروز مزید پستی کے گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے؟جن مسلم ملکوں میں ڈکٹیڑشپ اور بادشاہت قائم ہے وہاں مغرب کے کون سے مفادات اس صورت حال کو تبدیل نہیں ہونے دیتے؟سیکولرازم اور مغربی جمہوریت اگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو بروئے کار لانے کے آلات نہیں تو یہ پھر کس کے آلات ہیں؟سیکولر معاشرے سرمایہ دارانہ نظام کی کون سی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں؟جو ممالک بھر پور طریقے سے سیکولرازم کے عملبردار ہیں کیا وہ اپنے ملک میں اکثریت کے مذہبی غلبے کو بے اثر کر سکے؟کیا تمام سیکولر معاشروں میں اقلتیں ہر لحاظ سے محفوظ ہو چکی ہیں؟خصوصاً پاکستان میں قرارداد مقاصد کو ہدف تفید بنانے والا ذہن کیا یہ نشان دہی کر سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں یہ ملک واقعی اسلامی ریاست بن چکا ہے؟’’پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو‘‘کیا اس شق نے ملک کے تمام قوانین کو واقعتاًاسلامی بنا دیا ہے؟موجودہ پاکستان اُنہی معنوں میں ایک اسلامی ریاست ہے جیسی خلافت راشدہ کے دور کی اسلامی ریاست تھی۔اگر نہیں تو خرابی یا رکاوٹ کہاں ہے؟ یورپی یونین نے معاشی بنیادوں (صرف مسلم ترکی کو چھوڑتے ہوئے)خود کو سیکولر کہلوانے والی عیسائی ریاستوں کو یکجا کر دیا،کیا مسلمان ممالک بھی کسی ایک بنیاد پر ایک ڈھیلے ڈھالے سے وفاق کے ذریعے یکجا ہو سکتے ہیں؟اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے یہ وہ کم سے کم پہلو ہیں جن کا جائزہ لینا اور انھیں علمی بحث کا موضوع بنانا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آسمانی کتابوں کے حامل معاشروں میں دینی علماء کو محض کردار کے حوالے سے کتنے طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر مسلم معاشروں کے علماء کم و بیش مندرجہ ذیل شکلوں میں موجود رہے ہیں۔ایک طبقہ ان علمائے دین کا ہوتا ہے جو ہر حال میں حق و صداقت کا ساتھ دیتے ہیں قرآن و سنت پر قائم رہتے ہیں خواہ اس کے لیے انھیں حکمرانوں کی سزائیں برداشت کرنی پڑیں،قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑے،حتیٰ کہ وہ جان دینے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں جیسا کہ اسلاف میں سے امام ابوحنیفہ ؒ ،امام مالکؒ ،اور امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ ۔
ایک طبقہ ایسے علمائے دین پر مشتمل ہوتا ہے جو مشکل حالات میں نہ تو حکمرانوں کے قرب سے مستفید ہوتا ہے نہ ان کی مخالفت میں خود کو کسی مصیبت میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتا ہے وہ حالات سے سمجھوتا کر کے الگ تھلگ راہ اپنا کر وقت پورا کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ایک اور طبقہ ایسے علمائے دین کا ہوتا ہے جو ایک جانب درباری قسم کے علماء کی مخالفت مین بھی حق پر قائم رہتا ہے اور کسی خاص مسئلے پر اپنے منفرد حق و صداقت پر مبنی موقف پر ڈٹ کر حکمرانوں کی مخالفت سے بھی نہیں گھبراتا۔علمائے دین کا ایک طبقہ وہ ہے جو حکمرانوں کی خوشنودی کے حصول کے لیے ان کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔دینی مسائل کی ایسی توضیح و تشریح کرتا ہے جو حکمرانوں کے لیے ساز گار اور قابل قبول ہو۔اس خدمت کے عوض وہ خوب دنیا کماتا اور سمٹیتا ہے اورٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزراتا ہے۔حکومتی ایوانوں میں اچھے اثرورسوخ کا حامل ہوتا ہے۔
یہ اقسام مزید ذیلی اقسام میں تقسیم ہو سکتی ہیں لیکن دنیا کے ہر مسلم خطے میں ہر جغرافیے اور ہر مسلم معاشرے کے ہر دور میں یہ موٹی موٹی اقسام کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود رہی ہیں۔کون کس طبقے میں آتا ہے اس کا فیصلہ کسی عدالت یا حکومتی سرٹفیکٹ کے ذریعے نہیں ہوتا۔وقت کے ساتھ ساتھ عوام الناس خود جان لیتے ہیں کہ کون کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔
غامدی صاحب کے موقف اور مضامین پر براہ راست کچھ کہنے سے پہلے ضروری تھا کہ کچھ اصولی چیزیں بیان کر دی جائیں۔اب اگلے کالم میں انشاء اللہ غامدی صاحب کے مضامین کے حوالے سے براہ راست بات ہو گی۔ (جاری ہے)