لکھوی خاندان کی دینی خدمات
برصغیر بالخصوص پنجاب میں دین اسلام کی نشرو اشاعت، دعوت وتبلیغ، سماجی ورفاہی خدمات لکھوی خاندان کا طرہ¿ امتیاز رہا ہے۔ بے شمار لوگ ان کے بزرگوںکی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں توحید وسنت کی روشنی سے فیض یاب ہوئے۔عوامی خدمت کے اسی جذبے کے تحت یہ نصف صدی سے زائد عرصے سے سیاست میں بھی ہیں۔اگرچہ اس خاندان سے علمی وروحانی وابستگان کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہو ا ہے، تاہم ضلع قصور کاحلقہ این اے 140 ان کی انتخابی سیاست کا مرکز ہے، جہاںسے مولانا معین الدین لکھویؒ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ۔ اپنے والد گرامی کے سیاسی جانشین بن کراب ان کے فرزند گرامی ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی انتخابی میدان میں اترے ،مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔1951ءمیں پنجاب میں ہونے والے پہلے انتخاب میں مولانا معین الدین کے بڑے بھائی مولانا محی الدین لکھوی ؒ تحصیل چونیاں سے ایم ایل اے منتخب ہوئے ۔ ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کا سلسلہ ¿ نسب چھتیس واسطوں سے حضرت علی ؓ تک پہنچتا ہے، اس لحاظ سے یہ علوی خاندان ہے۔ تقسیم ملک سے قبل یہ خاندان ضلع فیروزپور کے ایک گاﺅں ”لکھوکے“ میں آباد تھا۔
ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی سے سات پشتیں پہلے ان کے ایک بزرگ حافظ احمد اس گاﺅں میں سکونت پذیر تھے۔ انہوں نے آج سے 293 سال قبل 1720ءمیں اس گاو¿ں میں ایک مدرسہ شروع کیا تھا، جس میں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ حافظ احمد کے ہاں 1743ءمیں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس نے حافظ بارک اللہ لکھوی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ اپنے آبائی مدرسے میں شائقین علم کو تعلیم بھی دیتے تھے اور تصنیفی کام بھی کرتے تھے۔ اپنے عہد کے وہ جلیل القدرعالم تھے اور دینی معاملات میں نہایت غیور تھے۔ لکھوی خاندان کے اس بزرگ کی ذات سے کچھ ایسے کراماتی واقعات بھی وابستہ ہیں، جن کو پڑھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ تقویٰ وپرہیز گاری کی بدولت اللہ نے انہیں ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز کردیا تھا۔ لکھوکے گاﺅں ریاست ممدوٹ میں واقع تھا۔ 1831ءکی بات ہے، ایک دن حافظ بارک اللہ لکھوی مسجد میں طلبہ کو درس دے رہے تھے کہ والی ¿ ریاست (نواب قطب الدین خاں) اپنے چند مصاحبوں کے ساتھ آیا۔ اس نے مصافحے کے لئے حافظ صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ان کے خادم علی محمد نے کہا کہ نواب صاحب نے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے ہیں۔ یہ سنتے ہی حافظ صاحب نے نواب کا ہاتھ جھٹک دیااور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ہم درویش لوگ امورِ دنیا سے منقطع ہو کر مسجد میں بیٹھے ہیں، بے دین لوگ یہاں بھی ہمیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ ایسی چیزیں پہن کر آجاتے ہیں، جن کا مردوں کے لئے پہننا شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ یہ الفاظ کہے اور نواب کو وہیں چھوڑ کر تیزی سے مسجد کے اندر چلے گئے۔
نواب صاحب کا پندارِ حکمرانی مسجد کے ایک درویش کے کلمہ ¿ حق کو برداشت نہ کر سکا۔ حکم ہوااسے فوراً حدودِ ریاست سے نکال دیا جائے۔نواب کے مصاحبوں نے اسے ریاست بدر کرنے کا حکم واپس لینے کو کہا، لیکن وہ نہ مانا، چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی اور حافظ بارک اللہ لکھوی اہل وعیال اور طلبہ ومریدین کو ساتھ لے کر دریائے ستلج کے کنارے آئے جو قصبہ ممدوٹ کے قریب سے گزرتا تھا اور کشتی میں سوار ہو کر ریاست بہاول پور کو روانہ ہو گئے۔ ان کا ارادہ حجازِ مقدس جانے کا تھا۔ وہ ہیڈ سلیمانکی پہنچے اور کشتی سے اُتر کر ”حاصل ساڈو“ کے مقام پر آئے اور عارضی طور پر وہاں جنگل میں قیام کیا، لیکن حافظ صاحب کی روانگی کے بعد قصبہ ممدوٹ میں یہ حیرت انگیز واقعہ پیش آیا کہ بغیر ظاہری اسباب وآثار اور موسم کے، دریائے ستلج میں اتنی شدید طغیانی آئی کہ پانی نواب کے باغات ومحلات اور شاہی قلعے تک جا پہنچا، جس سے قلعے کو سخت نقصان پہنچا۔
نواب اس صورتِ حال سے انتہائی پریشان ہوا اور مصاحبوں سے اس ناگہانی آفت کے بارے میں بات کی۔ سب نے یہی جواب دیا کہ یہ حافظ بارک اللہ کو ریاست سے نکال دینے کا نتیجہ ہے۔ وہ پرہیزگار بزرگ ہیں۔ انہوں نے صحیح بات کی تھی، جس سے ناراض ہو کر انہیں ریاست بدر کردیا گیا۔ اگر انہیں واپس نہ لایا گیا تو مزید طغیانی اور تباہی کا خطرہ ہے۔ یہ سن کر نواب پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس نے اسی وقت اپنے ماموں کی قیادت میں چند گھڑسواروں کو حافظ صاحب کے پیچھے دوڑایا اور نواب بہاولپور کے پاس بھی چند معززین کو بھیجا کہ وہ حافظ بارک اللہ کو، جو ان کے علاقے میں پہنچ گئے ہیں، مہربانی کر کے واپس ممدوٹ روانہ کردیں۔ حافظ صاحب واپس تشریف لائے، تو طغیانی رکی اور دریا کا پانی پہلی سطح پر آ گیا۔
نواب ممدوٹ نے حافظ صاحب سے معافی مانگی اور ”لکھو کے“ گاﺅں انہیں بطور جاگیر دینے کی پیش کش کی، لیکن حافظ صاحب نے یہ گاﺅں لینے سے انکار کر دیا۔
حافظ بارک اللہ لکھوی کے بارے میں دو اور واقعات بھی قابل ِ ذکر ہیں جو اِسی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ جب حافظ صاحب نے حاصل ساڈو کے مقام پر پڑاﺅ کیا تو وہاں کے لوگوں نے ان سے کہا کہ اس جنگل میں کسی ایسی بدروح کا اثر ہے، جو ان کے مال مویشیوں کو ہلاک کردیتی ہے، جو اس کی حدمیں چلے جاتے ہیں، لہٰذا آپ اپنے اونٹ وغیرہ وہاں نہ جانے دیں۔ حافظ صاحب نے جواب دیا اللہ نگہبان ہے اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ اس کے سوا کوئی کسی کو نقصان یا فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اس سے چند روز بعد معلوم ہوا کہ حافظ صاحب کا اونٹ اس جگہ چلا گیا، جس کے بارے میں لوگوں نے بتایا تھا کہ وہاں کسی بد روح کا اثر اور ٹھکانا ہے۔ وہ اونٹ وہاں جاتے ہی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اب حافظ صاحب وہاں پہنچے اور قرآن مجید کی چند آیات پڑھ کر اونٹ پر پھونک ماری اور وہ کھڑا ہو گیا۔ پھر چاروں طرف منہ کر کے کچھ پڑھا اور پھونکیں ماریں۔ فرمایا اب بے شک کوئی جانور اس جنگل میں کہیں چلا جائے، اسے کوئی شے نقصان نہیں پہنچاسکے گی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ اسی مقام پر حافظ بارک اللہ لکھوی سے حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی (شہادت 6۔مئی1831ئ) کی جماعتِ مجاہدین کے ایک عالم فاضل رکن سید جعفر علی نقوی کی ملاقات ہوئی جو اپنے رفقاءکے ساتھ نیپال کے علاقے سے آئے تھے اور جہاد کے لئے سرحد پار جاتے ہوئے یہاں ٹھہرے تھے۔ اس ملاقات کا ذکر انہوں نے اپنی فارسی زبان کی قلمی کتاب ”منظورة السعداءفی احوال الغزاة والشہدائ“ میں کیا ہے۔ان کے فارسی الفاظ کا ترجمہ یہ ہے: ”ان دنوں ایک بزرگ میاں بارک اللہ سے ملاقات ہوئی جو (نواب قطب الدین خاں) سے ناخوش تھے اور ریاست بدر کر دیئے گئے تھے۔ وہ نہایت شفقت اور مہربانی سے پیش آئے۔ ان کے مریدین بھی بہت محبت کا برتاﺅ کرتے تھے“۔ قمری حساب سے سید جعفر علی نقوی کی ملاقات حافظ بارک اللہ لکھوی سے 1245ھ میں ہوئی تھی اور یہ کتاب انہوں نے اس سے27سال بعد 1272ہجری میں لکھی۔ حافظ بارک اللہ لکھوی کی صالحیت ہی کا اثر تھا کہ انہوں نے ان کو یاد رکھا اور اپنی کتاب میں ان کا ذکر کیا، ورنہ اثنائے راہ میں بے شمار لوگ ملتے ہیں ، ان سے گفتگو بھی ہوتی ہے، مگر کوئی کسی کو یاد نہیں رکھتا۔ وہی شخص یاد رہتا ہے، جو غیر معمولی صلاحیت کا مالک ہواور جس کے عمل وکردار نے دل پر کوئی خاص نقش قائم کیا ہو۔ حافظ بارک اللہ لکھوی نے سو سال سے زیادہ عمر پاکر 1850ءمیں سفر ِ آخرت اختیار کیا۔
حافظ بارک اللہ کے فرزند گرامی حافظ محمد لکھوی تھے، جنہوں نے عربی، فارسی، پنجابی میں بے شمار کتابیں لکھیں۔ قرآن مجید کا فارسی میں بھی ترجمہ کیا اور پنجابی میں بھی۔ اس وقت کے پنجاب میں دینیات سے متعلق پنجابی اشعار کی کتابیں بے حد شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ انہوں نے پنجابی نظم میں تفسیر محمدی کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔ وہ تفسیر کئی بار چھپی اور بہت پڑھی گئی۔ حافظ محمد لکھوی کو ان کی تدریسی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے مصلح پنجاب کہا جاتا ہے۔ ان کی اصلاحی کوششوں کا دائرہ دریائے اٹک کی لہروں سے لے کر دلی کی دیواروں تک پورے متحدہ پنجاب میں پھیلا ہواتھا۔ حضرت حافظ محمد لکھوی کے بیٹے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی تھے۔ یہ بھی جلیل القدر عالم اور بدرجہ غایت تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ حج بیت اللہ کے لئے گئے اور مسجد نبوی میں حالت ِ سجدہ میں وفات پائی۔ جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کے فرزند ِ گرامی مولانا محمد علی لکھوی تھے۔ انہوں نے ایک عرصے تک اپنے جد ِ امجد اور والد ِمکرم کی مسند درس پر بیٹھ کر لکھوکے میں طلبہ کو علومِ دین کی تعلیم دی۔ پھر مدینہ منورہ چلے گئے۔ وہاں 46سال مسجد نبوی میں قرآن وحدیث کا درس دیا اورلا تعداد تشنگانِ علوم ان سے فیض یاب ہوئے، جن میں سعودی عرب، الجزائر، شام، مصر، سوڈان، اردن، لیبیا، کویت، نجد اور افریقی ملکوں کے بے شمار علماو طلبا و شامل ہیں۔ مولانا محمد علی لکھوی قرآن وحدیث کا درس دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔
مولانا محمد علی لکھوی کے دو بیٹے تھے۔ بڑے مولانا محی الدین لکھوی اور چھوٹے مولانا معین الدین لکھوی۔ دونوں بھائی علم وعمل میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ طویل مدت سے لکھوکے میں ان حضرات کا جو دارالعلوم جاری تھا، اسے اگست 1947ءمیں جامعہ محمدیہ کے نام سے اوکاڑہ میں جاری کیا گیا۔ اس کی نظامت مولانا معین الدین لکھوی کے سپرد تھی۔ اب ان کے بھتیجے اور داماد پروفیسر ڈاکٹر محمد حموداس کے ناظم ہیں۔ مولانا معین الدین لکھوی اپنے حلقہ ¿ انتخاب میں بھی خدمات انجام دیتے تھے اور جامعہ محمدیہ کے تدریسی اور انتظامی معاملات کی انجام دہی میں بھی سرگرم رہتے تھے۔ جامعہ محمدیہ سے اب تک ہزاروں طلبہ نے تحصیل علم کی اور پھر آگے انہوںنے اَن گنت لوگوں کو زیورِ علم سے آراستہ کیا۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو اس خاندان کے علماءکئی پشتوں سے مسلسل کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کارخیر میں پاکستان کا کوئی خاندان ان کا ہمسر نہیں۔پنجاب کے بے شمار علماءنے اس خاندان کے علماءکے سامنے لکھو کے میں بھی اور اوکاڑہ کی جامعہ محمدیہ میں بھی زانوئے شاگردی تہہ کئے۔ ٭