یہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ اپنے متعلق کچھ نہ سوچیں، چاپلوسی ہی کامیابی کا زینہ ہے، سرزنش سنیں اور مہینوں احساس جرم میں مبتلا رہیں 

یہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ اپنے متعلق کچھ نہ سوچیں، چاپلوسی ہی کامیابی ...
یہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ اپنے متعلق کچھ نہ سوچیں، چاپلوسی ہی کامیابی کا زینہ ہے، سرزنش سنیں اور مہینوں احساس جرم میں مبتلا رہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:47
اپنے سکول کی طرف سے خوشنودی و رضامندی کے حصول کے ضمن میں ابتدائی پیغامات و اشارے
جب آپ نے اپنے گھر سے باہر قدم رکھا اور سکول کے پھاٹک کے اندر داخل ہوئے تو آپ ایک ادارے میں داخل ہو گئے جو ا س لیے قائم کیا گیا ہے کہ دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی پر مبنی رویہ اور طرزعمل آپ کے روزمرہ معمولات زندگی میں داخل کر دیا جائے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہر معمولی کام انجام دینے سے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔ اس میں آپ کی مرضی اور خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ غسل خانے جانا ہو تو پہلے استاد سے اجازت لیں، ایک مخصوص نشست پر بیٹھیں۔ ہر چیز دوسروں کے احکامات کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہے۔ آپ کو سکول میں یہی پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ اپنے متعلق کچھ نہ سوچیں۔ اپنے پاس موجود کاغذ کی سولا مربع تہیں بنا لیں اور تہوں پر کچھ نہ لکھیں۔ آج رات پہلا اور دوسر اباب پڑھیں۔ الفاظ کے ہجے یاد کریں۔ اس طرح لکھیں، اس طرح پڑھیں، اس طرح سبق یاد کریں۔ آپ کوفرمانبرداری کا سبق دیا اور پڑھایا گیا۔ اگر آپ کوئی غلطی کربیٹھیں تو پہلے استاد سے ڈانٹ کھائیں، پھر ادارے کے سربراہ سے سرزنش سنیں اور مہینوں احساس جرم میں مبتلا رہیں۔ نتیجے کی اطلاع آپ کے والدین کے لیے یہ پیغام ہے کہ آپ نے کس قدر اساتذہ کی ہدایات اور احکامات پر عمل کیا ہے۔
اگر آپ کو سکول کے قیام کا مقصد پڑھنے کا موقع ملے جو کسی بارسوخ وفد کے دورے کے دباؤ کے نتیجے میں تحریر کیا گیا تو آپ کو ذیل میں درج الفاظ تحریر کی شکل میں ملیں گے۔
”ہم…… سکول، ہر طالب علم کی بھرپور اور مکمل تعلیمی نشوونما پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نصاب اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہمارے سکول میں ہر ایک طالب علم کی انفرادی ضروریات کی تکمیل و تسکین ہو سکے۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہر طالب علم اپنے طو رپراپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے کامیابی کے راستے خود تلاش کرے اور ہر طالب علم اپنی ان صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرے…… وغیرہ وغیرہ“
کتنے سکول اور اساتذہ ایسے ہیں جو ان الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ جو بھی طالب علم خود میں موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا آغاز کرنا ہی چاہتا ہے اور مختلف امور میں اپنی ذاتی مہارت کا مظاہرہ کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے، اسے اس کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے اور اسے اس کے صحیح مقام یعنی فرمانبردار طالب علم کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ جو طلبہ اپنا علیٰحدہ اندازفکر اپناتے ہیں، اپنے وجود، ذات اوربدن سے محبت کرتے ہیں، اپنی ذات اور اعتماد کے متعلق کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات اور فکر و ترددمیں مبتلا نہیں ہوتے، انہیں باقاعدہ طور پر ”مشکل طلبہ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
جو بچے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق سوچ اور اندازفکر اپنا لیتے ہیں،ان کے ساتھ سکول میں بہت ہی برا رویہ اور طرزعمل اختیار کیا جاتا ہے۔ اکثر سکولوں میں اساتذہ کی چاپلوسی اور خوشامد ہی کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ اساتذہ کی خدمت گزاری اور ان کے جوتے چمکانے ہی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر سکولوں میں یہی اصول کارفرما ہوتاہے اور صحیح بھی یہی رہتا ہے۔ اگر آپ اساتذہ کی نظروں میں تعریف کے قابل ثابت ہونا چاہتے ہیں تو پھر ان کے احکام کے مطابق اپنا رویہ اور طرزعمل اپنایئے وہ نصاب پڑھیے جو اساتذہ آپ کو بتاتے ہیں، آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر اکثر سکولوں میں تعلیمی مراحل کے دوران خوداعتمادی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اس لیے آپ میں دوسروں کی خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت کا احساس پیدا کر دیا جاتا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -