بجلی کے میٹر لگوانے کی بپتا
راقم نے گھریلو بجلی کے میٹر لگوانے کے لئے اپنے پوتوں بلاول افتخار اور عید محمد پسران محمد افتخار کے نام سے محکمہ لیسکو قلعہ محمدی یونین کونسل نمبر 10 راوی روڈ کے دفتر میں ڈیمانڈ نوٹس کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کروائیں۔ چند یوم دفتر کے چکر لگانے کے بعد ڈیمانڈ نوٹس 23-07-2014 کو نصیب ہوئے تو قریبی نیشنل بنک میں سیکیورٹی جمع کروا کر دفتر لیسکو کے ایس ڈی او معراج خالد صاحب کے حضور پیش ہو کر ڈیمانڈ نوٹسوں کی دونوں رسیدیں ان کے سامنے پیش کی گئیں۔ انہوں نے بڑے پیار سے لائن سپرنٹنڈنٹ جہانگیر صاحب کو حکم دیا کہ دس یوم سے قبل ان کے دونوں گھریلو بجلی کے میٹر لگوا کر مجھے رپورٹ کی جائے۔ جہانگیر بٹ نے وعدہ کر لیا تب میں پر اُمید ہو کر واپس گھر آ گیا۔ بہت خوش ہو کر سوچتا رہا کہ آج ہمارے علاقے کے محکمہ بجلی کے بالا آفیسر ان بہت نیک ایماندار، مختلف اور دیانتداری سے خدمت انسانیت کا جذبہ رکھنے والے ہمارے علاقے کے بسنے والے بلند قسمت والے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جب مجھے مسلسل دو ماہ تک دفتر کے چکر لگانے پڑے مجھے روزانہ یاد آ رہا ہے کہ جب تک کسی شخص سے کوئی واسطہ نہ پڑے اس وقت تک اس کی ذہنیت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایس ڈی او معراج خالد روزانہ خوش و خرم ہو کر کہتے بابا جی چائے پئیں گے جاﺅ یار بابا جی کے لئے گرم گرم چائے کا کپ لاﺅ۔ پھر متعلقہ لائن سپرنٹنڈنٹ کے متعلق دریافت کرتے اور مجھے یقین دہانی کروا کر واپس بھیج دیتے۔ ڈیڑھ ماہ بعد دس ستمبر بروز بدھ نیا بائیسکل جو میں نے دفتر کے باہر کھڑا کر کے دفتر ہذا کے اندر جا کر ایس ڈی او صاحب کے حضور پیش ہو کر واپس آیا تو میرا نیا بائیسکل غائب کروا دیا گیا تھا۔ سوچتا ہوں تپتی ہوئی دھوپ میں پیدل چلتا ہوا اور سوچتا ہوا گھر آرہا تھا کہ راستے میں کئی محلے داروں نے پوچھا بابا بھسین بائیسکل کدھر چھوڑ آئے ہو میں شرمندہ ہو کر جواب دیتا کہ کوئی ضرورت مند لے گیا ہے۔ پھر دوبارہ ایس ڈی او کے دفتر جا کر ان کو کہا کہ جناب آپ کے دفتر کے کسی اہلکار نے میرا سائیکل غائب کروا دیا ہے۔ آپ بتائیں کہ میں آپ کے خلاف تھانہ راوی روڈ میں ایف آئی آر درج کرا دوں یا آپ کے کسی لائن سپرنٹنڈنٹ لیسکو کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دیں۔ اگلے روز میں نے ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان صاحب سے کہا کہ جناب آپ کی راجدھانی میں میرا بائیسکل ایس ڈی او لیسکو راوی روڈ قلعہ محمدی کے دفتر کے باہر کسی نے غائب کر لیا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کی ایف آئی آر آپ کے خلاف درج کرواﺅں تو انہوں نے سنتے ہی کہا کہ اس ایف آئی آر کی ایک فوٹو کاپی مجھے بھی دینی ہو گی۔
اگلے روز میں نے ایس ڈی او لیسکو سے کہا کہ جناب چونکہ آپ کا نام معراج خالد ہے اور میرے سیاسی باپ سیاسی استاد کا نام بھی معراج خالد تھا جو وفات پا چکے ہیں جن کی زندگی پر میں نے عقیدت کے پھول کے عنوان سے کتاب بھی تحریر کی۔ سابق حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم نے پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں کے لئے منظور کی اور میں نے تمام اداروں کی لائبریریزمیں بھیجی ہے۔ جناب آپ کو بھی پیش کر چکا ہوں لہٰذا آج میرا ضمیر مجھے سوال کر رہا ہے کہ چونکہ ایس ڈی او کا نام بھی معراج خالد ہے لہٰذاآج آپ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے کوئی کارروائی کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا ۔
ایس ڈی او معراج خالد نے پچاس روز لائن سپرنٹنڈنٹ جہانگیر بٹ کو احکامات جاری کر کے مجھے طفیل تسلیاں دیکر واپس بھیج دیا گزشتہ دس یوم سے ایس ڈی او صاحب نے غضنفر نامی لائن سپرنٹنڈنٹ لیسکو کو طلب کر کے حکم دیا کہ آج ہی بابا جی کے میٹر لگائے جائیں۔ میں شام تک انتظار کرتا رہا۔ مایوس ہو کر بستر پر لیٹ کر سوچتا رہا کہ آج ڈاکٹر سرجن نے دوسرے ماتحت ڈاکٹر کے حوالے سے لاغر مریض کو کر دیا ہے۔ اگلے روز انتظار کرنے کے بعد دفتر کے اہلکار کے موبائل فون سے غضنفر کو فون کر کے میری بات کروائی تو اس نے جواباً کہا کہ آج میں مریدکے میں نماز جمعہ ادا کر کے واپس آکر آپ کے میٹر ضرور لگوا دوں گا۔ لیکن جھوٹ اور جھوٹے وعدوں نے مجھے مزید پریشان کر کے ذہنی مریض کر دیا ہے اس وقت میری 78 سال کی عمر ہے اور آج بھی میں بائیسکل پر سوار ہو کر لاہور کی سڑکوں پر سفر کرتا ہوں۔ روزانہ خدمت انسانیت سماجی کارکن کی حیثیت سے خدمت انسانیت بغیر کسی لالچ کے کرتا ہوں۔ مورخہ 21-09-2014 بروز اتوار بوقت تین بجے تحریر مکمل کر چکا تھا کہ اچانک منیر احمد نامی اہلکار میٹر لیکر آ گیا۔