کورٹ میرج کیوں ضروری ہے؟

کورٹ میرج کیوں ضروری ہے؟
کورٹ میرج کیوں ضروری ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے وکالت کے پیشے سے منسلک ہوئے دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ میں نے ابھی تک کورٹ میرج نہیں دیکھی تھی۔ آج ہمارے دفتر میں کورٹ میرج ہونا تھی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ آخر شام 5بجے کے قریب میرے کولیگ اپنے کلائنٹ کے ہمراہ دفتر میں داخل ہوئے۔ مولوی صاحب کو نکاح پڑھوانے کے لیے پہلے ہی بلوایا جا چکا تھا۔ لہٰذا بنا کسی حیل و حجت اور تاخیر کیے بنا نکاح کا Procedureشروع کر دیا گیا۔ نکاح ختم ہوتے ہی دولہا نے سب میں مٹھائی تقسیم کی اور سب سے مبارکباد وصول کی۔ میں نے آج پہلی مرتبہ کسی ایسے نکاح میں شرکت کی تھی۔ 

بچپن سے ہی ”کورٹ میرج“ کرنے والوں کے خلاف ہی سن رکھا تھا۔ یہ ہی سنا تھا کہ ایسے مرد و خواتین واجب القتل ہوتے ہیں گو کہ یہ بات دین نے نہیں سکھائی تھی۔ یہ ہمارے معاشرے کی سوچ تھی۔ ایک مرتبہ محلے میں ایک لڑکی نے کورٹ میرج کر لی سارا محلہ اس کے خلاف ہوگیا اس کے والدین نے بھی اس سے قطع تعلق کر لیا۔ بہن بھائیوں نے بھی کہہ دیا کہ وہ ان کے لیے مر گئی اور تو اور محلے داروں نے بھی اس کے والدین کو بھی منہ لگانا چھوڑ دیا اور اس کے والد اور بھائیوں کو ”بے غیرت“ کے لقب سے نواز ڈالا۔
آج اس کورٹ میرج کو دیکھنے کے بعد مجھے کچھ خلاف دین نہ لگا۔ لڑکا لڑکی بالغ تھے۔ عاقل تھے۔ گواہ موجود تھے۔ نکاح خواں نے تمام دینی تقاضے پورے کئے۔ ہاں درست ہے کہ دونوں جانب سے ان کے والدین رضا مند نہ تھے مگر محض اس وجہ سے یہ کہنا کہ یہ شادی جائز نہیں ہے سراسر غلط ہے۔
میں ہرگز نہیں کہتی کہ لڑکیاں کورٹ میرج کریں یا والدین کی مرضی کو بالائے طاق رکھ دیں مگر ناجائز تعلقات رکھنے اور غیر شرعی کام کرنے سے بہت بہتر ہے کہ کورٹ میرج کر لی جائے۔ کسی رشتے اور تعلق کو جائز نام اور مقام دینا بہت بہتر ہے۔ ہم بحیثیت قوم ذہنی طور پر پست لوگ ہیں۔ ہماری ذہنی پستی کی انتہا کیا ہوگئی کہ ہم یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ہماری بیٹی یا بہن کسی لڑکے سے عشق و محبت کرے اس کے ساتھ گھومے پھرے مگر معاملہ اگر شادی یا کورٹ میرج پر ختم ہو تو ہم مارنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ یا تو اس وقت ہی معاملے کو کنٹرول کر لیا جانا چاہئےتاکہ بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں،مگر ہماری غیرت اس وقت جاگتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ایسے کتنے واقعات عدالت اور کچہری نے دیکھ رکھے ہیں جب کوئی لڑکا لڑکی شادی کے بعد عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔غیرت کا یہ معیار میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
آج جو کورٹ میرج دفتر میں ہوئی اس میں لڑکی طلاق یافتہ اور لڑکا کنوارا تھا۔ لڑکے نے گھر کے افراد کو منانے کی بہت کوشش کی مگر گھر والے بضد تھے کہ وہ طلاق یافتہ کے ساتھ اس کی شادی ہرگز نہیں کریں گے۔ اس معاملے میں لڑکا درست تھا۔ قرآن و سنت کے مطابق بھی اس کا فیصلہ قابل دید تھا۔ کسی ایسی خاتون کو تحفظ دینا بہت بڑے اجر و ثواب کی بات ہے اور معاشرہ بہت بہتر ہو جائے ۔اگر ہم اپنی نام نہاد غیرت کے معیار بدل دیں۔ گو کہ میری یہ تحریر بہت بے باک تصور کی جائے گی۔ جو لوگ خود کو دین کے نام نہاد علمبردار سمجھتے ہیں شاید انہیں یہ ہضم نہ ہو مگر بحیثیت ایڈووکیٹ درست اور غلط کی نشاندہی کرنا میرا فرض ہے۔ پی ایل ڈی2008، 479پی آئی ڈی2004سیکشن219ان کیس لاز کے مطابق ”ولی کی مرضی بالغ خاتون کی شادی کے لیے ضروری نہیں ۔کوئی بالغ عورت اپنی آزاد مرضی کے ساتھ شادی کر سکتی ہے۔“
قانون اور شریعت کے تحت اگر دونوں فریقین عاقل اور بالغ ہیں تو وہ ولی کی مرضی کے بغیر شادی کر سکتے ہیں۔تاہم کورٹ میرج ہو جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک جائز اور شرعی تعلق ہے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -