’’عبادت گذار جہنم میں اور گناہ گار جنت میں‘‘
بخاری شریف میں ایک روایت ہے کہ کسی بستی میں ایک بہت بڑا عابد و زاہد رہتا تھا ، وہیں اس کا ایک دوست یا ہمسایہ ہر معاشرتی برائی میں مبتلا تھا۔ وقت گذرتا گیا دونوں کی عمر کافی زیادہ ہو گئی اتنی کہ ان کو اپنا آخری وقت قریب محسوس ہونے لگا۔ ایک دن زاہد و عابد نے اپنے ساتھی سے کہا ’’ تو ضرور جہنم میں جائے گا کہ نہ تو نمازاہتمام سے پڑھتا ہے نہ تجھے دیگر عبادات سے کوئی رغبت ہے‘‘
اس بات کا جواب اس نے یقیناًیہی دیا ہو گا جو ایسے موقعوں پر ہم میں سے اکثر لوگ سنتے ہیں کہ اللہ مالک ہے وہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ دونوں انتقال کر گئے،دونوں کو بیک وقت اللہ کے حضور پیش کیا گیا تو اللہ نے عبادت گذار کے بارے میں فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اور جہنم میں ڈال دو اور دوسرے کے بارے میں کہا کہ اس کو عزت و احترام کے ساتھ جنت پہنچا دو۔
یہ معاملہ جب فرشتوں نے سنا تو انہیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا عجب الٹ معاملہ ہے عبادت گذار جہنم میں اور گناہ گار جنت میں جائے۔ حجت کے طور پر پوچھا کہ کیا ایسا ہی کرنا ہے ۔جواب ملا ہاں ایسا ہی کرو ۔مجھے اس عابد کی عبادت سے کیا لینا دینا۔یہ تو دنیا میں خدا بن بیٹھا تھا۔ جزا و سزا کا معاملہ میرا ہے۔ یہ فیصلہ کس بنیاد پر کرتا ہوں ، یہ بھی میری مرضی ہے ۔یہ دنیا میں خود جنت جہنم کے فیصلے کر رہا تھا ۔ اس کو کیا پتا میں کس کو کس بات پر بخش دوں اور کسی کو اس کی بظاہر چھوٹی سی غلطی پر سزا دے دوں۔ اس کے مقابلے میں گناہ گار میرے بارے میں یہ گمان رکھتا تھا کہ میں بڑا رحمن اور غفور و رحیم ہوں ضرور بخش دوں گا تو میں نے اس سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ کیا۔
ایک اور روایت کے مطابق جبرائیل علیہ السلام نے ایک گناہ گار شخص کے بارے میں دوزخ کا فیصلہ مانگاتو اللہ نے کہا’’ میں نے اس کو بخش دیا‘‘۔
جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا کہ کس بنیاد پر تو اللہ تعالی نے فرمایا ’’ایمان کی بنیاد پر‘‘ پھر پوچھا’’ کس ایمان کی بنیاد پر کہ اس کا تو کوئی ایمان ہی نہیں اس کا سارا نامہ اعمال تو گناہوں سے عبارت ہے‘‘ اس پر اللہ نے جواب دیا کہ جبرائیل ؑ تواس کا دل تو کھول کر دیکھ ۔اس کے دل میں یہ گمان راسخ موجود ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والارحمن اور رحیم ہے ۔کیا تجھے اس کے دل میں کہیں یہ لکھا ملا کہ اللہ بڑا جابر ہے۔ بڑا قہار ہے،اس کو یقین تھا کہ اس نے مرنا ہے میرے سامنے پیش ہونا ہے اس کا میرے رحمن ہونے پر یقین ہی اس بخشش کے لئے کافی ہے۔‘‘ حجت تمام کرنے کے لئے اللہ تعالی نے جبرائیلؑ کو حکم دیا کہ اس کوکچھ عرصہ کے لئے واپس دنیا میں واپس لے جا ۔ جب اسے دنیا سے واپس لایا گیا تو جبرائیلؑ نے کہا’’ اے اللہ میں نہ کہتا تھا کہ یہ بخشش کے قابل نہیں اس بار تو اس نے پہلے سے بھی زیادہ گناہ کئے اور اپنی بخشش کا کوئی بھی سامان ساتھ نہیں لایا‘‘
اللہ نے پھر یاد دلایا ’’ جبرائیل تو انصاف کے ترازو کو چھوڑ رہا ہے۔ تو دیکھ کہ اس کا میرے رحمن اور رحیم ہونے پر بھروسہ پہلے سے زیادہ ہے۔ تو اس کا میرے رحمن ہونے کا یقین ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ اور دوسرے پلڑے میں اس کا گناہ رکھ پھر فیصلہ کر کہ کیا ہونا چاہئے‘‘
ان روایات سے کہیں یہ دلیل قائم نہ کر لی جائے کہ نیک اعمال کی کوئی حیثیت نہیں یا ایسی روایات سے گناہوں کی حوصلہ شکنی اور نیکی کی حوصلہ افزائی نہ ہو گی۔اگر ہمارا اس بات پر ایمان کامل ہو کہ ہم نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو اس بارے میں اللہ اپنی بات حدیث قدسی کے ذریعے پہنچاتا ہے کہ میں اس ایمان کی بدولت اپنے بندے کی مغفرت کر دوں گا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔