ایماندارافراد کی معاشرے میں قلت ہوتی جا رہی ہے،حکومت اور عوام کے درمیان، لوگوں کے درمیان حتیٰ کہ خاندان کے افراد میں اعتماد کا فقدان ہے
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:224
میں ایسی تبدیلیوں کا بھی گواہ ہوں جن کے بارے میں جان کر نوجوان نسل کے لوگ ورطہ میں پڑ جائیں گے۔ مثلاً گھروں میں پانی صحن کے نکڑ پر لگے ہوئے دستی نلکے سے حاصل کیا جاتا تھا اور اس وقت کے بیت الخلا ء گھر کی چھت پر ہوتے تھے اور وہاں پانی کا کوئی انتظام بھی نہیں ہوتا تھا، لوٹے میں پانی ساتھ لے کر جانا پڑتا تھا۔ اور اب یہ ہر خواب گا ہ کے ساتھ ہی منسلک باتھ روم میں موجود ہیں۔ بجلی کے بلبوں نے مٹی کے تیل کے وہ دئیے بجھا دئیے جس سے انسان صدیوں سے روشنی حاصل کرتا رہا تھا۔ توانائی اور حرارت حاصل کرنے کے لیے لکڑیاں جلا کر کھانے پکانے کا سلسلہ بھی ختم ہوا اور اس کی جگہ قدرتی گیس نے لے لی ہے۔ کچن ایک چھوٹے سے کمرے میں بنے ہوئے چولہوں پر مشتمل تھا جس میں کوئلے اور لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ اور اب یہ کچن اور باتھ روم کسی بھی گھر کے مہنگے ترین حصے تو ضرور ہیں لیکن ان کی وجہ سے زندگی جتنی آرام دہ اور پرسکون ہوگئی ہے اس کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف ہمارے زمانے کے لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ ایک زمانہ ایسابھی تھا کہ چینی اور کپڑے راشن کارڈ پر ملتے تھے اس کی بڑی وجہ غالباً یہ تھی کہ قیام پاکستان کے وقت یعنی میں 1947ء ملک میں فقط2 شوگر مل تھیں اور 2 ہی کپڑے بنانے کی ملیں۔ اب بازاروں میں بہترین چینی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور دکانوں پر بیشمار اقسام کا کپڑا دستیاب ہے۔ سڑکوں کے ذریعے سفر کرنا اس وقت ایک بھیانک سپنا لگتا تھا، اس کی بڑی وجہ مناسب راستوں کا نہ ہونا اور ٹوٹی پھوٹی بسیں تھی۔ اب بہترین سڑکوں اور موٹرویز کے جال ہر طرف بچھ گئے ہیں اور خوبصورت اور آرام دہ بسوں کی آمد نے سفر کوبہت سہل بنا دیا ہے۔ میری جوانی کے دور تک بھی ٹیلیفون رکھنے کی سہولت ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی۔ مگر اب یہ ایک ضرورت بن گیا ہے اور معاشرے کے غریب ترین افراد کی جیب میں بھی موبائل فون ہوتا ہے۔ کاروں کی فروخت اور ملکیت ہماری سوچ بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے جنم بھوم ڈسکہ میں صرف ایک ہی کار ہوتی تھی اور اب زیادہ تر گھرانوں میں ایک سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ معاشرے کے ایک طبقے میں دولت کا ارتکاز بہت بڑھ گیا ہے تاہم ان کے اور غربا ء کے بیچ تفاوت کی خلیج بھی وسیع تر ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے نچلے طبقے میں احساس محرومی رہنے لگا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اور اس سلسلے میں میرا خیال ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کی طرف جانا ایسے سماجی مسئلے کا ایک بہترین حل ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ انفرادی اور قومی سطح پر مادی ترقی کے ثمرات دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہاں معاشرہ اخلاقی اقدار میں تنزلی کا شکار بھی ہوا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں میں عدم اطمینان، بے چینی، اور بے نام سی اذیت پائی جاتی ہے اور یہ بلا تفریق امیر اور غریب طبقے میں موجود ہے،مگر دونوں میں اس کی وجوہات مختلف ہیں۔ ہم عددی طور پر تو 98 فیصد مسلمان ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے راستے سے ذرا ہٹ کر ہی چلتے ہیں۔ یہاں آپس میں ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ معاشرے میں بدعنوانی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، اور ناجائز کمائی کی سطح روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے اپنے مقاصد کے حصول کا طریقہ کار بھی عروج پر ہے۔ سمجھدار اور ایماندار لوگوں کی معاشرے میں قلت ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان، لوگوں کے درمیان حتیٰ کہ خاندان کے افراد کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی طرف مراجعت اور اس کی تخلیق وتنظیم نو کے لیے ضروری ہے کہ یا تو اسلام کی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ یا پھر ترقی یافتہ ملکوں کی کامیابیوں سے کچھ سبق سیکھ کر اس کی پیروی کی جائے۔ ہمارے معاشرے میں جو برائیاں در آئی ہیں کوئی بھی ملک ان پر قابو پائے بغیر کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ایک عدم تشدد اور برداشت کے اوصاف سے متصف انصاف والا معاشرہ ہی اس کا واحد حل ہے کچھ تنظیمیں،جن میں سر فہرست اخوت اور الخدمت ہیں، مائکرو فنانس، صحت اور تعلیم کے شعبے میں فقید المثال خدمات انجام دے رہی ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔