فضائی قوت،ہماری محسن         (1)

  فضائی قوت،ہماری محسن         (1)
  فضائی قوت،ہماری محسن         (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فضائی قوت (Air Power) کا آغاز 17دسمبر 1903ء کو اس وقت ہوا جب امریکی ریاست شمالی کورلینا (North Corilina) کے دو بھائیوں نے پہلا ہوائی جہاز فضا میں بلند کیا۔ان کے نام آرویل رائٹ اور ولبررائٹ تھے۔ان کو رائٹ برادران (Wright Brothers) کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں ایک پادری کے بیٹے تھے جس کا نام ملٹن رائٹ تھا۔ مغربی ممالک میں پادری اور بشپ باقاعدہ حکومت کی طرف سے تنخواہ دار ملازم شمار کئے جاتے ہیں اور ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر بھی ان کی وزارت مذہبی امور کی طرف سے کی جاتی ہے۔

مغربی ممالک میں رواج یہ ہے کہ ان کے بچوں کی پرورش ایک آزاد ماحول میں کی جاتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کا وہ کنٹرول ان پر نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ چنانچہ  ولبر اور آرویل بھی آزاد ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئے۔ وہ اکثر یہ سوچتے رہتے تھے کہ اگر بیلون میں گرم گیس بھر کر اُسے ہوا میں بلند کر لیا جاتا ہے تو کیا کسی آہنی مشین کو بھی ہوا بردار کیا جا سکتا ہے؟ یہ خیال ایک انقلابی خیال تھا۔ لوہے اور فولاد کی بنی ہوئی کسی مشین کو ہوا میں اُڑانا ایک انقلاب انگیز تصور ضرور تھا لیکن اسی تصور نے مغرب میں بسنے والی اقوام کو نت نئی ایجادات کا موجد بنایا۔

ایشیاء میں بسنے والی اقوام کے تصورات، مغربی اقوام کے باسیوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ہمارے ہاں کوئی لڑکا اگر بیسویں صدی عیسویں کے آغاز میں کسی فولادی مشین کو ہوا میں اڑانے اور اس میں خود بیٹھ کر اسے کنٹرول کرنے کا تصور پیش کرتا تو اسے ”پاگلوں کا سرتاج“ کہا جاتا۔ برصغیر کے باسی خواہ مسلمان تھے یا ہندویا سکھ، وہ اپنے دور کی مروج روایات و رسوم کے اسیر تھے۔ ان رسوم سے باہر نکل کر یا ان سے بغاوت کرکے کسی مختلف فکر کی طرف جانا محالات میں سے تھا۔

مغربی ممالک کے رہنے والے نوجوانوں کی آزاد خیالی کو مذہبی اور سماجی اقدار سے بغاوت کا نام بھی دیا جاتا تھا (اور ابھی بھی دیا جاتا ہے)۔ دیکھا جائے تو بادی النظر میں یہ تصور بڑا حیرت انگیز تھا کہ انسان لوہے کی کوئی ایسی مشین بھی بنا سکتا ہے جو ایک یا ایک سے زیادہ انسانوں کو اپنے پروں (Wings) کے اندر بٹھا کر اتنی تیزی سے اُڑ سکتی ہے کہ کوئی بھی تیز رفتار پرندہ اس کی اڑان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

1903ء میں جب یہ پہلی آہنی مشین فضا میں بلند ہوئی تو اس کی اڑان محض 11سیکنڈ تھی۔ لیکن رائٹ برادران نے اس پر مزید تجربے جاری رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کو ایسی منزلوں پر پہنچا دیا کہ جو اس وقت کے فضائی سائنس دانوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ رائٹ برادرز نے اپنی زندگی ہی میں اپنی اس ایجاد کو نہ صرف امریکہ بلکہ سارے یورپ میں پھیلا دیا۔

امریکہ اور یورپ کے درمیان بحراوقیانوس حائل تھا جس میں بحری جہاز چلتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 1927ء میں ایک امریکی تن تنہا ایک ہوائی جہاز میں بیٹھ کر واشنگٹن سے اڑے گا اور پیرس میں جااترے گا!…… فضائی قوت کے تدریجی ارتقاء کی کہانی کی ایک ایک تفصیل آج انٹرنیٹ میں پڑھی اور دیکھی جا سکتی ہے۔ میں اگر اس کو دہراؤں گا تو یہ ایک سعیء لاحاصل ہوگی۔ قارئین، فضائی قوت کے ارتقائی ادوار کی کہانی نیٹ میں ڈھونڈ اور پڑھ سکتے ہیں اور حیران بھی ہو سکتے ہیں کہ 1914ء میں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو اس سے صرف گیارہ برس پہلے 1903ء میں گیارہ سیکنڈ تک اڑنے والا پہلا ہوائی جہاز باقاعدہ لڑاکا اور بمبار طیارے میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔اس جنگی طیارے نے اس پہلی عالمی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور 1918ء میں جب یہ جنگ ختم ہوئی تو برصغیر کے باسیوں تک کو معلوم ہو چکا تھا کہ ہوائی جہاز کیا ہے اور اس کے جنگی کارنامے کیا ہیں۔

اس تناظر میں 1903ء سے لے کر 1914ء تک گیارہ برس اتنے اہم اور تاریخ ساز تھے کہ فضائی قوت کی ابتدائی منازل طے کرکے اس کو دنیا بھر کی افواج میں باقاعدہ ایک الگ سروس بنا دینا، ان ممالک کے حکمرانوں کا ایک عظیم کارنامہ تھا کہ جو اس پہلی عالمی جنگ میں شریکِ جنگ تھے۔ یہ ممالک کون کون سے تھے اورپہلی عالمی جنگ کے چار برسوں میں اس جنگ میں شامل قوموں کی افواج پر کیا گزری اور انہوں نے کیسے کیسے کارنامے انجام دیئے، ان موضوعات پر ”جنگ عظیم اول“ پر بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور پاکستان کی لائبریریوں میں بھی موجود ہیں، ان سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ ہوائی جہاز کا پہلا استعمال فوجی نوعیت کا نہ تھا بلکہ سویلین نوعیت  کا تھا۔ اول اول ہوائی جہاز کو ڈاک کی جلد تقسیم کے لئے استعمال کیا گیا۔ فوری اہمیت کے خطوط اور پارسل بذریعہ ہوائی جہاز ایک شہر سے دوسرے شہر میں بھیجے جاتے تھے۔ انڈیا میں بھی 1911ء میں ہوائی جہاز کا پہلا استعمال ڈاک کی تعجیلی تقسیم کے لئے کیا گیا۔ 18فروری 1911ء کو پہلی کمرشل فلائٹ الٰہ آباد سے نینی تال کے لئے کی گئی۔ یہ فاصلہ 10کلومیٹر کا تھا اور اس پہلے جہاز میں 6500خطوط6میل کی مسافت طے کرکے تقسیم کئے گئے۔ ہوائی جہاز کا دوسرا استعمال بھی غیر فوجی تھا یعنی کسی جاں بلب مریض کو ہوائی جہاز کے ذریعے کسی دور افتادہ مقام سے کسی ہسپتال میں منتقل کرنا مقصود ہوتا تھا تو اس کے لئے ہوائی جہاز استعمال ہوتا تھا۔ 

ہوائی جہاز کا جنگی استعمال جس شخص نے سب سے پہلے تجویز کیا وہ ایک اطالوی جنرل تھا جس کا نام جنرل ڈوہٹ (Dohit) تھا۔ اس نے ہوائی جہاز کے اُن عسکری گوشوں کی طرف توجہ دلائی جو اس دور میں کسی کے ذہن میں بھی نہیں تھے۔ اسی نے لڑاکا جہازوں، بمبار طیاروں، ریکی طیاروں اور ان کی دیگر اقسام کی تفاصیل کا ایک خاکہ کھینچ کر ”فضائی قوت“ کے حیرت انگیز پہلوؤں کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ ’مشین‘ دراصل مستقبل کی وہ واحد مشین ہو گی جو نہ صرف زمینی، بحری اور فضائی جنگ و جدل میں استعمال ہوگی بلکہ اس کو کسی بحری جہاز پر سوار کرکے دنیا کے کسی بھی گوشے میں لے جایا جا سکے گا۔ آج گیارہ عدد طیارہ بردار جہازوں کا بیڑا جو امریکہ کی واحد سپریم پاور ہونے کا سبب بنا ہوا ہے، وہ ڈوہٹ ہی نے پیش کیا تھا۔

میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ جب یہی ہوائی جہاز انڈیا میں پہلی بار آیا تو اس کے جنگی استعمالات کی بجائے ہمارے شاعروں نے اس مشین پر شاعری کی مشق شروع کر دی۔ شاید اسماعیل میرٹھی یا عبدالرزاق واحدی کی وہ نظم تو قارئین نے پڑھی ہوگی جس کے اولین اشعار یہ تھے:

وہ دیکھو ہوائی جہاز آ گیا

بجاتا ہوا اپنا ساز آ گیا

ہواؤں میں وہ دندناتا ہوا

گرجتا ہوا، گھنگھناتا ہوا

ہوا پر یہ جاتا ہے اس طرح سے 

سمندر میں جس طرح کشتی بہے

اور تو اور علامہ اقبال نے بھی ’پیام مشرق‘ میں طیارہ کے عنوان سے جو فارسی نظم لکھی اس کے بعض حصوں کا ترجمہ دیکھئے:

ایک پرندہ ایک درخت کی شاخ پربیٹھا اپنے دوست پرندوں کو کہہ رہا تھا: ”آدم زاد کو خدا نے اچھا کیا کہ ہماری طرح پر و بال عطا نہیں کئے اور اس کو ’زمین گیر‘ ہی رکھا“۔میں نے اس پرندے کی بات سنی تو کہا: ”اے طائرِ نکتہ داں! ہمیں اللہ نے آپ کی طرح اگر بال و پر عطا نہیں کئے تو کیا ہوا۔ ہم نے تو طیارہ بنا لیا ہے جو فرشتوں سے بھی زیادہ تیز اڑتا ہے۔ فضا میں اس کی گھن گرج شنیدنی ہوتی ہے لیکن جب زمین پر آتا ہے تو بالکل اس طرح خاموش ہو جاتا ہے جیسے سمندر کے پانی میں مچھلی خاموش ہوتی ہے“۔…… اس پرندے نے میری یہ بات سنی، اپنی جونچ سے اپنے پروں کو کھجلایا، میری طرف گھور کر دیکھا اور کہا: ”اے انسان! تو نے یہ سب کچھ تو کر دیا لیکن یہ بتا کہ کیا تو نے زمین کے وہ کام سنوار لئے ہیں جن کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا تھا کہ اب تو زمین کو چھوڑ کر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو رہا ہے؟:

تو کارِ زمیں را نکو ساختی

کہ باآسماں نیز پرداختی؟

ہمارے شعراء نے ہوائی جہاز پر اردو اور فارسی زبانوں میں جو نظمیں لکھیں اگر ان کا مقابلہ مغربی موجدوں اور سائنس دانوں کی تصانیفِ شعر و ادب سے کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم مشرق کے ’مسکین‘ کس جگہ کھڑے ہیں۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -