شام میں انتقالِ اقتدار کے علاقائی اثرات

   شام میں انتقالِ اقتدار کے علاقائی اثرات
   شام میں انتقالِ اقتدار کے علاقائی اثرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرکے حیات تحریر الشام نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ میں ان حالات کا اندازہ 1991میں لکھے گئے اپنے کالم ”نیو ورلڈ آرڈر اور متوقع جغرافیائی تبدیلیاں“کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کے حالات بارے میں کہہ سکتاہوں کہ شام کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے،یہ عالمی سامراجی قوتوں کی شیطانی سازشوں کا حصہ ہے۔ جب باغی گروہ کے حلب پر قبضے کی خبر آئی تو تاریخ کے اوراق پلٹتے پتہ چلا کہ یہ سرزمین انبیاء ہے۔ حلب اللہ تعالیٰ کے مکرم نبی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حلب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیڑیں چرایاکرتے تھے۔وہ بھیڑوں کا دودھ مقامی لوگوں کو تقسیم کردیتے تھے، اسی دودھ کی وجہ شہرت کے باعث اس علاقے کا نام حلب پڑا۔ شام پر باغی گروہ کی چڑھائی ایک دن یا چند مہینوں کی منصوبہ سازی نہیں تھی، سالہا سال سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ اس سازش کو کامیاب کروانے اور پروان چڑھانے میں بشار الاسد اور اس کے والد حافظ الاسد کا آمرانہ کردار بھی نظر آتا ہے۔ جب سلطنت عثمانیہ میں شام ایک وسیع علاقے پر محیط ملک تھا، جس میں لبنان فلسطین، اردن اور شام کے بیرونی علاقے بھی شامل تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سامراجی قوتوں امریکہ برطانیہ فرا نس جرمنی نے مل کر شام کے ٹکڑے کرکے یہاں مختلف خاندانوں کی حکومتیں تشکیل دیں۔ لبنان میں مسیحیوں کی حکومت بنائی گئی۔ فلسطین میں فلسطینیوں کو حکومت دی گئی جبکہ اردن اور عراق میں ہاشمی خاندان کو لوگوں پر مسلط کیا گیا پھر کچھ عرصہ کے بعد دنیا میں کمیونزم اورسوشلزم کا نعرہ بلند ہوا۔دوعرب ممالک عراق اور شام میں بعث پارٹی نے سوشلزم سے متاثر ہو کر سوشلسٹ نظام کو متعارف کروایا۔ شام کی سوشلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل حافظ الاسد نے اقتدار سنبھالا، اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور طول دینے کے لیے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔ حافظ الاسد کی موت کے بعد اس کے بیٹے آئی ا سپیشلسٹ بشار الاسدکو بیرون ملک سے بلوا کر اقتدار اس کے حوالے کر دیا گیا۔ بشار الاسد نے جمہوریت کا نعرہ لگایا اور اقتدار میں آتے ہی قبائلی نظام کو مضبوط کیا اور کاسہ لیس ساتھیوں کو اقتدار میں شامل کر لیا اور اقتدار مضبوط کرنے کے لیے مخالفین کا قتل عام کیا، ملک بدری کا ہتھیار استعمال کیا۔ لاکھوں افراد ترکی اور لبنان میں پناہ گزین ہوئے۔اس طرح لاکھوں مخالفین کو قتل کر کے بشارالاسد نے اپنے اقتدار کوطول دیا۔

 انہی ایام میں ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے بڑی طاقتوں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کے نام پر کچھ گروہوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کی۔ القاعدہ اور داعش کو مضبوط کر کے عراق کے اندر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ پھر انہی گروہوں کے سرپرستوں نے موجودہ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمدالجولانی کوان گروہوں سے علیحدہ کر کے شامی حکومت کے مخالفین کو اس کی سرپرستی میں دے دیا۔بیسیوں کی تعداد میں یہ گروہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑتے رہے۔ان میں سے سب سے زیادہ مضبوط گروہ کردوں کا ہے۔  انہوں نے بہت سے علاقوں میں اپنی حکومت بھی قائم کر دی۔ یہ بھی اسی نیو ورلڈ آرڈر کے نقشے کا حصہ ہے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ شام کے اقتدار پر قبضے کی سازش اسرائیل،ترکی، امریکہ،برطانیہ اور یورپی ممالک نے تیار کی اور عملی اقدام کے لیے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ لبنان کے علاقے میں صیہونی حکومت نے لبنان کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے وہاں جنگ چھیڑ دی اور فضائی حملوں سے لبنان کی شہری آبادی پر اتنی بمباری کی کہ مجبوراً یہاں کی جہادی، سماجی اور سیاسی قوت حزب اللہ نے بھرپور مقابلہ کیا۔سامراجی قوتوں کی ضرورت کے تحت اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کروائی گئی۔پھر چند ہی دنوں بعد شام میں تحریر الشام نے حملے شروع کر دیے اور تقریبا ًڈیڑھ ہفتے کے اندر پورے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ بشار الاسد کو ایک معاہدے کے تحت ملک چھوڑنا پڑا۔وہ اپنی جان بچاتے ہوئے اپنے خاندان اور قریبی ہمنواؤں کے ساتھ روس میں سیاسی پناہ حاصل کر چکے ہیں۔میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ شام کی موجودہ قابض حکومت اپنی پالیسیوں کو سامنے لارہی ہے، جس میں اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ابو محمد الجولانی شام کے علاقے جولان پر اسرائیلی قبضے پر خاموش ہے، اس پر کوئی رد عمل نئی حکومت نے نہیں دیا۔ اموی مسجدمیں خوشیاں منانے والے نئے حکمران فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے ایک جملہ بھی کہنے کو تیار نہیں۔ جبکہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کاعندیہ تک نہیں دیا گیا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کے لیے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ ایران اور حزب اللہ بھی مشکلات کا شکار ہوں گے لیکن سب سے زیادہ نقصان فلسطینی عوام کا ہوگا جن کی سرپرستی شام کے راستے ایران کر رہا تھا۔اتنا کچھ ہو نے کے باوجود میں سمجھتا ہوں نیو ورلڈ آرڈر منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ شام میں بدامنی کی چنگاری کے اثرات عراق میں بھی نظر آئیں گے۔ یہ تبدیلی ایران کے صوبے سیستان بلوچستان کے علاقے میں بھی افراتفری پھیلا کر مستحکم حکومت کو متزلزل کرنے کی کوشش کرے گی۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایرانی بلوچستان سے پاکستانی بلوچستان میں افراتفری پھیلا کر گریٹر بلوچستان کی بات کی جائے گی۔ اسی طرح ہمارے کچھ ناسمجھ اورنا تجربہ کار تجزیہ کاروں کے آرٹیکلز میری نظروں سے گزرے ہیں،جن میں وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع مسئلہ کشمیر بارے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں اطراف کے کشمیری ’خود مختار کشمیر‘ چاہتے ہیں۔ جس طرح ایران، ترکی،عراق اور شام کے کردگریٹر کردستان بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح سے عراق شام ایران کو بھی تقسیم کرنے کی سازش ہو گی۔کیونکہ گریٹر بلوچستان کے حوالے سے انڈیا کی سرپرستی میں بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر حکومت کے خلاف میدان عمل میں لایا گیا ہے۔ خودمختار گریٹر بلوچستان کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت بھی گریٹر پختونستان کا مطالبہ اٹک تک کرتی ہے۔یہ نعرے بھی کئی بار افغانستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں سے بھی سنے گئے تھے کہ افغانستان دعویٰ کرتا ہے کہ اٹک تک ان کا علاقہ ہے۔میں صرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں کہ گہری نظر کے ساتھ خصوصا ً جغرافیائی سرحدوں کی محافظ افواج پاکستان کوہر قسم کی علاقائی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے ماہرین کا پینل تشکیل بنانا چاہیے،جو ہمہ وقت اس قسم کے ممکنہ حادثات پر نظر رکھے اورسازش کو تقویت دینے کا باعث بننے والے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔

مزید :

رائے -کالم -