بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی

   بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی
   بیوروکریٹس کی بطور وائس چانسلر تعیناتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ہاں کئی اہم امور بارے معاملات طے نہیں کئے جا سکے اور بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں جو طے شدہ ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ تعلیم و تدریس کے حوالے سے ہماری ترجیحات قطعاً واضح نہیں ہیں اس کا اظہار بجٹ میں کم ترین فنڈ ایلوکیشن سے ہوتا ہے۔ تعلیم و صحت کے لئے جو مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں وہ انتہائی کم ہوتے ہیں، ان کے حجم کو دیکھ کر ترجیحات کا اندازہ لگایاجا سکتا ے۔ سرکاری اہلکاروں و افسروں کی تعیناتیوں اور ترقیوں وغیرہ کے معاملات قانونی طور پر طے ہیں۔ قوانین موجود ہیں،  لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیاجاتا کم گریڈ کے افسروں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرکے ان سے من مانے کام لئے جاتے ہیں۔ پسند ناپسند کے اہلکاروں کو اچھے اوربڑے عہدے دیئے جاتے ہیں جبکہ ناپسندیدہ افراد کو کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نظام مطلوبہ نتائج دینے سے قطعاً قاصر نظر آتا ہے۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ یہاں ڈائریکشن نہیں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے مختص یونیورسٹیوں میں مالی وسائل اکٹھے کرنے کے لئے ایسے کورسز بھی شروع کئے جا رہے ہیں جن کی مارکیٹ میں طلب تو ہے لیکن اس یونیورسٹی کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہیں۔ انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ایم بی اے کی تدریس اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں فنی تعلیم کے ڈپلومے کرائے جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص اداروں میں ادنی درجے کے کورسز کرانا چہ معنی دارد؟ لیکن ایسا ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یونیورسٹیز گریجوایٹس کی عالمی مارکیٹ میں اس طرح پذیرائی نہیں ہوتی جس طرح دیگر ممالک کی یونیورسٹیز گریجوایٹس کی ہوتی ہے۔ویسے ہمارے ملک میں چند ایک عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹیز موجود ہیں جہاں دور جدیدکے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے اور ان یونیورسٹیز کے گریجوایٹس کو عالمی مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، لیکن اکثر یونیورسٹیز،بس یونیورسٹیاں ہیں اور وہ بھی صرف نام کی۔

ہمارے ہاں ابھی تک یہ حتمی طور پر طے نہیں ہوپایا ہے کہ وائس چانسلر کا عہدہ یاپوسٹ انتظامی ہے یا تدریسی۔ یہاں کسی پروفیسر کو تعینات کیا جائے گا یا انتظامی صلاحیتوں والی شخصیت کو۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں جرنیلوں کو وائس چانسلر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جنرل ارشد محمود اور یو ای ٹی میں جنرل اکرم تعینات کئے گئے تھے ان دونوں جرنیلوں کے ادوار میں ان یونیورسٹیوں میں بہت بڑے بڑے کام ہوئے پنجاب یونیورسٹی میں تعلیمی و تدریسی تعمیر و ترقی کی بہت سی مثالیں قائم کی گئیں۔ جنرل اکرم نے یو ای ٹی کو اس کی اعلیٰ حیثیت کے مطابق آگے بڑھایا۔ یہاں قائم سیاسی جماعتوں کے اڈے ختم کئے۔ تعلیمی ماحول بحال کیا،کیا جرنیلوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہ کے طور پر تعینات کرنا درست ہے؟اس بارے میں شاید ابھی تک حتمی سوچ کا فقدان ہے۔ اطلاعات کے مطابق سندھ کی صوبائی کابینہ نے سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس لاز ایکٹ 2018ء میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سرکاری جامعات میں گریڈ 21کے بیورو کریٹس کو بطور وائس چانسلر تعینات کیا جا سکے گا۔ نئی ترامیم کے تحت انجینئرنگ اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں تو اسی شعبے کے پی ایچ ڈی پروفیسر وائس چانسلر تعینات ہوں گے تاہم سندھ کی جنرل یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہ رکھنے والے بیورو کریٹ کو بھی وائس چانسلر تعینات کیا جا سکے گا۔ ویسے یہ فیصلہ بڑا ہی عجیب نظر آ رہا ہے۔ ہماری بیورو کریسی کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی، کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف کرپٹ اور نالائق ہوتے ہیں بلکہ بدنیت بھی ہوتے ہیں۔پاکستان میں ہر سطح پر، مرکزہو یا صوبہ یا اس سے بھی نیچے بلدیاتی سطح پر، ہماری بیورو کریسی کام نہ کرنے اور کام کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔ بیورو کریسی اس قدر زنگ آلود ہو چکی ہے کہ اس کے خاتمے اور اس کی جگہ نیا نظام لانے کی نہ صرف باتیں ہوتیں رہی ہیں بلکہ اس حوالے سے نوازشریف کے گزرے وزارت عظمیٰ کے دور میں کافی لکھت پڑھت بھی ہوئی تھی۔ احسن اقبال نے اس حوالے سے خاصی محنت بھی کی تھی لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بیورو کریسی کسی بھی کام کے ہونے کی راہ میں روڑے اٹکانے میں یدطولیٰ رکھتی ہے اس نے اپنی اس خصوصی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس پلان کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اب وہی نالائق، کرپٹ اور بدنیت بیورو کریسی عوام اور نظام کے سر پر سوار ہے اور عوام اس گلے سڑے نظام سے نہ صرف اکتائے ہوئے بیٹھے ہیں بلکہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بے تاب بھی ہیں۔ عمران خان کا قومی سیاست میں عروج اور نوجوانوں کے اذہان پر غلبہ پانے کی کلیدی وجہ عوام کی ایسی ہی سوچ کے باعث ممکن ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان قومی سیاسی تاریخ کے احمق ترین اور ناکام ترین شخص قرار پائے ہیں۔ انہوں نے عوامی خواہشات اور توقعات کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کیا ہے اس سے قوم میں شدید مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ عوام سکہ بند سیاستدانوں سے پہلے بھی اکتائے ہوئے تھے اس صف میں عمران خان بھی شامل ہو چکے ہیں۔ بیورو کریسی ایسے تمام حالات کی برابر کی ذمہ دار ہے اب حکومت سندھ کا زیر نظر فیصلہ کیا نتائج ظاہر کرے گا، اس بارے میں بہت زیادہ تدبر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سندھ میں ویسے بھی تسلیم کا شعبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے ویسے تو تعلیم ہمارے ہاں سرکاری سطح پر،کسی بھی سطح پر،مرکز ہو یاصوبہ جات، ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اس کا اظہارقومی اور صوبائی بجٹوں میں شعبہ تعلیم کے لئے مالی وسائل مختص کرتے ہوئے ہوتا ہے۔ سب سے کم وسائل تعلیم کے لئے مہیاکئے جاتے ہیں اب تو صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ حکومتیں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو دی جانے والی گرانٹس کو منجمد کرتی چلی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ادارے خود اپنے وسائل پیدا کریں۔

بات ہو رہی تھی سندھ میں بیورو کریٹس کو یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر تعینات کرنے کے فیصلے سے متعلق۔ اس بارے میں تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ سندھ ایک پسماندہ صوبہ ہے۔کراچی اگر نکال دیں تو باقی سب ایسے ہی ہے ایسا ہی تعلیم کا شعبہ ہے۔ بیورو کریسی کی لیاقت اور نیک نیتی بارے بھی ہمیں آگہی ہے۔ وائس چانسلر کے طور پر یہ بیورو کریسی کیا کرے گی اس بارے میں جاننے کے لئے بہت زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں ہے ویسے آصف علی زرداری یارباش قسم کے سیاستدان ہیں۔ شاید انہیں کسی بیورو کریٹ دوست کو وائس چانسلر لگانا ہوگا اس لئے انہوں نے حکومت سندھ کو یہ ٹاسک دے دیا ہو گا کہ قانون سازی کرو تاکہ ایسا میرٹ پر ہو جائے۔ اس کے نتائج بارے میں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہوں نے بہت سے ایسے کام کئے ہیں جو شاید عام حالات میں نہیں کئے جا سکتے تھے۔ حکومت سندھ نے یہ قانون جو پاس کیا ہے معلوم نہیں انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ 

مزید :

رائے -کالم -