معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ بارہویں قسط
تھیم (Theme)کیسینوز
اس بورڈ والک پر چلتے چلتے ہم لوگ راستے میں آنے ولے کیسینوز میں جاتے رہے۔ یہ کیسینوز چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں اوران میں داخل ہوکر دن ورات کا فرق مٹ جاتا ہے۔ تاہم ان کی اصل رونق کا وقت رات کا ہوتا ہے۔ یہ حسن ورعنائی ، تعمیر و زیبائش اور رونق وصفا میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ان میں سے بعض کسی خاص تھیم (Theme) پر بنائے گئے ہیں۔ یعنی کسی خاص واقعہ یا جگہ کو بنیاد بناکر پورا کیسینو اسی پس منظر میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے تین ایسے تھے جنہوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔میں ان کی تفصیلا ت آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔
ان میں سے پہلا تاج محل اور ہندوستان کی قدیم تہذیب کے پس منظر میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام بھی تاج محل تھا۔ اس کے داخلے کا دروازہ بہت خوبصورت اور دیدہ زیب تھا۔دن کے وقت بھی اس کے رنگوں نے عجب بہار دکھارکھی تھی مگر رات کے وقت اس کی روشنیوں کا حسن انتہائی دلکش سماں دکھارہا تھا۔ اس کی تعمیر میں مغلیہ دور کے قلعوں اور محلوں کا انداز پیشِ نظر رکھا گیا تھا۔اندر بھی ہر چیز ایسا ہی تاثر پیش کررہی تھی۔ کہیں کوئی گھڑ سوار کھڑا تھا۔ کہیں کوئی اڑن قالین پر سوار اڑتا چلا جارہا تھا۔ کہیں طویل العمر منکے والا سانپ بنادیاگیا تھا۔ کیسینو کے مختلف حصوں کے نام بھی اسی مناسبت سے رکھے گئے تھے۔مثلاً جس جگہ بڑے نوٹوں سے جوا کھیلا جاتا ہے اس ہال کا نام ’’سلطان ‘‘ رکھاگیا تھا۔پھر دبیز قالینوں، دیوہیکل فانوسوں اور آرائشی شیشوں نے ماحول ایسا بنادیا کہ مغلیہ دور کے شاہی محلوں کی یاد تازہ ہورہی تھی۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ گیارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
دوسرا کیسینو جو مجھے پسند آیا اس کا نام "Wild Wild Wild West" تھا۔ یہ امریکا کے قدیم دور کے پس منظر میں بنایا گیا تھا جب لوگ سونے کی تلاش میں امریکا کے صحرائی علاقوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے۔ جو لوگ ویسٹرن فلموں سے واقف ہیں وہ اس پس منظر کو بخوبی سمجھتے اور لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ہم اندر داخل ہوئے تو ایک عجیب منظر تھا۔ ایک بڑا سا مصنوعی آدمی ایک ٹب میں ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں شراب لیے پڑا تھا اور پاس میں سونے کی ڈلیا ں پڑی تھیں۔ گویا کہ وہ اس کامیابی کا جشن منا رہا تھا جو سوناپانے کی شکل میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ ہم آگے بڑھے تو ایک ہال میں پرانی وضع کی ٹرین چلتی ہوئی دکھائی دی۔ دیواروں پر اس دور کے کلچر اور عام واقعات کی عکاسی بڑے اچھے انداز میں کی گئی تھی۔ یہ عکاسی تصویروں کی شکل میں نہیں تھی بلکہ باقاعدہ دیواروں پر مکانوں اور انسانوں کی شبیہیں بنائی گئی تھیں۔ کہیں عورتیں اس دور کے لباس میں مکانوں سے جھانک رہی تھیں، کہیں کوئی ڈاکو بینک سے پیسے لوٹ کر فرارہورہا تھا اور کہیں پولیس اور شیرف نظر آرہے تھے۔لطف یہ تھا کہ اس کیسینو کے واش رومز بھی اسی دور کی طرز تعمیر کے مطابق بنائے گئے تھے۔
ہم ایک اور ہال کی طرف بڑھے جو سب سے زیادہ دلچسپ تھا۔ اگرچہ اس کیسینو میں ہر جگہ دیواروں سے پہاڑیوں کا تاثر دیا گیا تھا۔ مگر یہاں ان پہاڑیوں سے پانی کا جھرنا بھی بہہ رہا تھا جو آگے جاکر ایک تالاب میں جاگرتا تھا۔ یہاں سونے کی موجودگی کا تاثر دینے کے لیے ان پہاڑیوں پر سنہری چمکیلی لکیریں بھی ڈالیں گئی تھیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ منظر اس تالاب نما دریا کا تھا۔ یہاں پہاڑیوں کے پس منظر میں ایک شخص اپنے گدھے کے ساتھ ہاتھ میں پلیٹ لیے کھڑا تھا۔ گویا کہ کوئی آدمی دریا کی ریت چھان کر پانی سے سونانکالنے کی کوشش کررہا ہے۔اس منظر کی اصل خوبی یہ تھی کہ آدمی اور اس کا گدھا بالکل حقیقی لگ رہے تھے۔ میں جب ہال میں سائڈ کی طرف سے داخل ہوا تو تھوڑی دیر کے لیے یہی سمجھا کہ انہوں نے اس جگہ حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کے لیے اصلی آدمی اور گدھے کو کھڑا کردیا ہے۔ دراصل ان کی حرکات حقیقت سے بہت قریب تھیں۔ گدھا باقاعدہ چیختا اور اسکامالک اس سے منہ ہلاکر باتیں بھی کررہا تھا۔ ساتھ میں دیگر جانور مثلاًگدھ اور گلہریاں وغیرہ بھی بنے ہوئے تھے جو وقفے وقفے سے حرکت کررہے تھے۔ پہاڑوں کے ساتھ صحرائی درخت بھی بنے ہوئے تھے۔
ماحول کو حقیقت سے قریب کرنے کے لیے چھت کو گنبد نما آسمان کی شکل میں بنایا گیا تھا۔اس کا رنگ وقفے وقفے سے بدلتا رہتا۔ جن سے دن اور رات کے مختلف اوقات کا تاثر ابھرتا۔ صبح کاجھٹپٹا، دن کا اجالا، شام کی ملگجی روشنی اور رات کا تاروں بھرا آسمان۔ سب وقفے وقفے سے آتے رہتے۔ ان سب کے ساتھ ابر آلود موسم اور بارش کی بھی عکاسی کی گئی تھی، جس میں گرج چمک اور بارش کے صوتی اور بصری اثرات سے حقیقت کارنگ بھرا گیا تھا۔ غرض بڑی چابکدستی سے فطرت کی نقل کی گئی تھی۔ ہم کافی دیر تک وہاں بیٹھے اور اس مہارت کی داد دیتے رہے۔
تیسرا کیسینو رومی سلطنت کی تھیم پر بنایا گیا تھا۔ اس کا نام ’’سیزر ‘‘ تھا۔مرکزی دروازے پر رومی انداز کی رتھوں، ان میں جتے گھوڑوں اور سوار کو بڑی متاثر کن مجسمہ سازی کے ذریعے دکھایا گیا تھا۔اندر بھی رومی تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے تعمیرو آرائش کی گئی تھی۔ مجھے سب سے زیادہ اس کے ریسٹورنٹ کا حصہ پسند آیا۔ جسے اس زمانے کے مندر (Temple) اور قلعے کے پس منظر میں بنایا گیا تھا۔ اس کے داخلی دروازے پر لگے بڑے بڑے پردے، قلعے کی دیواروں پرلگی جلتی ہوئی مشعلیں اور ان کے ساتھ پہرے دار محافظ گو مصنوعی تھے مگر انہوں نے ماحول پر ایسا تاثر پیدا کردیاکہ انسان لامحالہ خود کو اسی دور میں محسو س کرتا۔ ایک کونے میں سیزر کا بلند و بالا مجسمہ نصب تھا جس کے ساتھ ایک خوبصورت فوارہ بھی چل رہا تھا۔ ان سب سے بڑھ آسمان کا ایک ایسا تاثر دیا گیا تھا جس نے تما م ماحول کو بے پناہ مسحور کن بنادیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے جھلمل کرتے تارے اور خوبصورت آسمانی رنگ جسکے ساتھ روشنی کا تناسب ایسا حسین تھا کہ وقت کی رفتار تھمی ہوئی سی معلوم ہورہی تھی۔
میری ٹریجڈی اور میرے ابنائے نوع کی ٹریجڈی
مجھے خاموش دیکھ کر میری بہن مجھ سے بار بار پوچھ رہی تھیں کہ یہ سب کیسا لگ رہا ہے۔ وہ اس جگہ کے بارے میں میرے تاثرات جاننا چاہتی تھیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کمالِ فن اور حسنِ صناعی نے مجھے گنگ کردیا تھا۔ آپ اسے میری ٹریجڈی کہہ لیجیے کہ مجھے جب بھی کوئی چیز اس طرح متاثر کرتی ہے تو میں کچھ کہنے کے بجائے خاموش ہوجاتا ہوں۔ میرا ذہن ہمیشہ مخلوق سے خالق کی طرف مڑجاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب انسان اپنے تمام تر عجز کے باوجود ایسی کاریگری دکھاسکتا ہے تو خدا ۔کائنات کا پالنہار اور تمام خزانوں کا مالک ۔جب فردوس کی صورت میں اپنی خلّاقی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کا عالم کیا ہوگا۔ یاقوت و مرجان کی وہ بیٹیاں چاند سورج جن کی دلکشی کو سجدہ کریں، شیشے اورموتی کے وہ محل جن کا مسالہ مشک و عنبر ہوگا، سونے اور چاندی کے وہ درخت جن کے سائے ابدی اور پھل ہر لمحہ قابلِ رسائی ہوں گے، بکھرے موتیوں جیسے وہ خدّام جو آخری حد تک مالک کے مزاج آشنا ہوں گے، دودھ، شہد، ماء مصفا اور شراب کی وہ نہریں جو پینے والوں کو ہرگھونٹ میں صحت وزندگی اور لطف و لذت کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کریں گی اور نجانے کیا کیا کچھ۔ مخبرِ صاد ق صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بتادیاہے کہ جہاں تمہارے علم وادراک کی حدیں ختم ہوتی ہیں خدا کا فن وہاں سے شروع ہوتاہے۔ اور خود خداوند یہ کہتا ہے کہ یہ وہ سلطنت ہے جہاں ملے گا جو مانگو گے اورجو تمہا را دل چاہے ، وہ دیا جائے گا ، جہاں خوف پر مارسکتا ہے نہ غم کا کوئی گزر ہے، جہاں ماضی اپنے تمام تر پچھتاووں کے ساتھ غیر موجود ہے اورمستقبل اپنے تمام تر اندیشوں کے ساتھ غیر حاضر۔ یہ خدا کے غلاموں کی ابدی بادشاہی ہے جس سے وہ نکلنا چاہیں گے نہ کوئی انہیں نکالے گا۔ کوشش کرنے والوں کو اس جنت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ مقابلہ کرنے والوں کو اس جنت کے لیے مقابلہ کرنا چاہیے۔
انسان کے تحت الشعور میں کہیں اس فردوس کی کوئی جھلک ضرور موجود ہے جو اسے ہر جگہ اس کی نقل کرنے پر مجبور ضرور کرتی ہے۔ اللہ نے یہ جھلک انسان میں اس لیے رکھی ہے کہ انسان اللہ سے اس فردوس کو خریدلے۔ مگر پیغمبروں کی رہنمائی کھودینے کے بعد انسان اس دنیا میں ہی فردوس کی تعمیر میں لگ جاتا ہے۔ میں اور آپ کتنی سادگی سے زندگی گزارسکتے ہیں، مگر نہیں گزارتے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرآسائش بنانے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی ساری توانائی دنیا میں اپنی جنت کی تعمیر کی کوشش میں گنوادیتے ہیں۔ مگر جنت نہیں بن پاتی۔ بار بار ہماری محدودیت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ ہم کھانا کھاتے ہیں مگر پیٹ بھر جاتا ہے، ہم نکاح کرتے ہیں مگر یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں۔ ہم تھک جاتے ہیں، اداس ہوجاتے ہیں ،بوڑھے ہوجاتے ہیں، بیزار ہوجاتے ہیں ، بیمار ہوجاتے ہیں اور ہم۔۔۔ اپنی فردوسِ ناتمام کو چھوڑ کراپنے رب کے حضور لوٹ جاتے ہیں۔ جہاں ہماری اصل جنت موجود ہے مگر اس وقت اسے خریدنے کے لیے ہمارے پاس سرمایہ نہیں ہوگا۔ وہ تو سارا دنیا کی جنت کی تعمیر میں خرچ ہوچکا۔ہاں کچھ ہوگا تو ابد تک اپنی محرومی پر رونا اور چلانا ہوگا۔ وہ میری ٹریجڈی تھی یہ میرے ابنائے نوع کی ٹریجڈی ہے۔ پتا نہیں کس کی ٹریجڈی زیادہ بڑی ہے۔ کون جانے۔۔۔۔۔۔
ون آرم بنڈٹ (One Arm Bandit)
یہ پورا شہر جس مقصد کے لیے آراستہ و پیراستہ کیا گیا تھا اس کا ابھی تک کوئی تذکرہ میں نے نہیں کیا۔ میرا اشارہ جوئے کی طرف ہے جو انسانی طبیعت میں موجود طمع کی آگ سے جنم لیتا ہے اورخاندان کے خاندان جلا کر راکھ کردیتا ہے۔ ان تمام کیسینوز میں تمام مروجہ طریقوں کے مطابق جوا کھیلنے کی سہولت موجود ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے ممالک یعنی یورپ وغیرہ میں ہونے والی گھڑ دوڑ پر سیٹلائٹ کے ذریعے جوا کھیلنے کا بھی انتظام ہے۔ یہاں جن طریقوں سے جواکھیلا جارہا تھا میں نے ہر جگہ رک کر انہیں دیکھا تو سہی لیکن تفصیلات سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ ایک قسم ایسی تھی جس پر سب سے زیادہ جوا کھیلا جارہا تھا اور اسے سمجھنے میں مجھے کوئی دقت بھی نہیں ہوئی۔
اس طریقے میں ایک سلوٹ(Slot) مشین استعمال کی جاتی ہے۔ یہ مشین کم و بیش پٹرول پمپ پر لگی ہوئی پٹرول ڈالنے والی مشین جیسی ہوتی ہے۔ پٹرول ڈالنے والے پمپ کی طرح اس کے ایک طرف بازو نما ایک لیور لگا ہوتا ہے۔ جبکہ سامنے پیسے اور پٹرول کی مقدار بتانے والے نمبروں کی جگہ تصویریں یا بعض اوقات نمبر لگے ہوتے ہیں۔ اس مشین میں سلوٹ کے ذریعے مختلف قیمت کے سکّے ڈالے جاتے ہیں۔ پھر لیور کو پکڑ کر کھینچ لیا جاتا ہے۔ بعض مشینوں پر لیور کی جگہ بٹن لگا ہوتا ہے جسے دبایا جاتا ہے تو مشین پر لگی ہوئی تصویریں یا نمبر گھومنے لگتے ہیں۔ یہ اگر ایک خاص ترتیب میں آکر ٹھہر جائیں ، جوکہ مشین پر بنی ہوئی ہوتی ہے، تو کھیلنے والا ڈھیر سارے سکّے جیت جاتا ہے وگرنہ ڈالے ہوئے سکّے بھی چلے جاتے ہیں۔ ان تمام جوئے خانوں میں بندھے نوٹوں کے عوض سکّے لینے اور دینے کا انتظام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ بڑے نوٹوں سے جوا کھیلنا چاہیں انکے لیے ایسی مشینوں کا انتظام بھی ہے جن میں بڑے نوٹ ڈالے جاسکتے ہیں۔ بہرحال یہاں سلوٹ مشین جوئے کی سب سے مقبول عام قسم نظر آئی۔
اسی مشین سے متاثر ہوکر انگریزی زبان میں ون آرم بنڈٹ (One Arm Bandit) یعنی ایک بازو والے ڈاکو کی انتہائی مناسب اور حسبِ حال اصطلاح وجودمیں آئی ہے۔کیونکہ اکثر ڈالے ہوئے سکّوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ انسان ابتدامیں ایک کھیل اور تفریح سمجھ کر اس میدان میں کود تا ہے۔ مگر جوا ایک کھیل نہیں ایک لت ہے۔ جسے یہ لت لگ جائے وہ آخر کار اپنا سب کچھ اس ایک بازو والے ڈاکو کے ہاتھ لٹا دیتا ہے۔
کیسینوز کی کامیابی کا راز
ان کیسینوز میں ہونے والا جوا آنے والے جواریوں کے لیے تو بخت و اتفاق کی چیز ہوگی مگر ان کے چلانے والوں کے لیے یہ ایک منظم کاروبار ہے جو قسمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر چلایا جارہا ہے۔ محلوں جیسے عالیشان کیسینوز، ان کے بے گنتی ملازمین، بے تحاشہ اخراجات ایک انویسٹمنٹ ہے جسے تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔یہ جوئے خانے جس اصول پر بنائے جاتے ہیں وہ یہ نہیں ہوتا کہ آنے والا جیت کر جائے۔ بلکہ اصول یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں لوگ آکر جیت کی امید میں تھوڑاتھوڑا ہارتے جائیں۔ اس کے بعد چند اشخاص کو جتوادیا جاتا ہے اور ہارے ہوئے لوگوں کی رقم میں سے کچھ انہیں مل جاتا ہے اور باقی رقم جوئے خانے والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ ان کی بڑی کمائی ان سلوٹ مشینوں سے ہی ہوتی ہے جو سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لگی ہوئی ہیں۔ان میں کھیلا جانے والا جوا ایک مکمل حسابی عمل ہے۔ مثلاً ایک مشین میں سو لوگوں نے سو ڈالر ڈالے ہیں تو اس میں سے نوے ڈالرپندرہ آدمیوں میں مختلف تناسب سے تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ بقیہ دس ڈالر ان لوگوں کا نفع ہے۔ دن بھرمیں کئی ملین ڈالر کا جوا کھیلا جاتا ہے چنانچہ ان کو بھاری منافع ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کیسینوزکے ساتھ بڑے بڑے ہوٹل بھی ہیں جہاں لوگ آکر ٹھہرتے ہیں ان کا منافع الگ ہے۔ شراب خانے اور کھانے پینے کی جگہیں مزید ہیں۔ نیز جوبڑے لوگ کھیلنے آتے ہیں ان کے لیے ہارنے اور جیتنے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ تو پیسہ لٹانے اور اپنی شان کا اظہار کرنے آتے ہیں۔ یہ لوگ سلوٹ مشینوں پر نہیں کھیلتے بلکہ انکے لیے خصوصی میزیں لگی ہوتی ہیں۔ ہاتھ میں قیمتی شرابوں کے جام لیے شعلہ بدن پری چہرہ حسیناؤں کے جھرمٹ میں یہ لوگ لاکھوں ڈالر ایک وقت میں لٹادیتے ہیں۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔