امریکی فنڈنگ سے پاک ،بھارت مشترکہ فلم سازی

امریکی فنڈنگ سے پاک ،بھارت مشترکہ فلم سازی
امریکی فنڈنگ سے پاک ،بھارت مشترکہ فلم سازی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پاکستانی اور ہندوستانی فلم سازوں نے امریکی این جی او 'سیڈز آف پیس' کے ساتھ مل کر 8 دستاویزی فلمیں تیار کی ہیں، جو اگلے ماہ جون میں ریلیز کی جائیں گی. اس مشترکہ منصوبے کے لیے مالی اعانت ​​کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے ثقافتی امور کی جانب سے فراہم کی گئی ہے. ان تیار کی گئی 8 فلموں میں چھ کی کہانی فکشن  جبکہ دو حقیقی زندگی پر مبنی ہیں. ان فلموں کی تیاری کے دوران نہ ہی بھارتی فلمی سٹاف پاکستان آیا اور نہ پاکستانی سٹاف بھارت گیا. تاہم کچھ وقت کے لیے امریکہ سمیت تینوں ممالک کے لوگ مشترکہ طور پر سری لنکا میں اکٹھے ہوئے تھے. 

دونوں ممالک میں تیار کردہ ان دستاویزی فلموں کا مقصد  پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان ثقافتی اور تاریخی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے. اور یہ پورا پروجیکٹ کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے ثقافتی امور کے افسر جان ریٹیگن کے ذہن کی اختراع تھا. جنہیں اکتوبر 2020 میں کراچی قونصلیٹ میں تعینات کیا گیا تھا. 

  پاکستانی اور بھارتی فلم سازوں کے لیے، امریکی این جی او 'سیڈز آف پیس' نے 21 نوجوان بھارتیوں اور 21 نوجوان پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ 8 مختصر فلمیں بنانے کے لیے تعاون کیا ہے. جو تمام امریکی فنڈنگ ​​سے تیار کی گئی ہیں. مختصر دورانیے کی ان دستاویزی فلموں کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل کے درمیان ثقافتی اور تاریخی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے. 

گزشتہ 2 برسوں کے دوران یہ دستاویزی فلمیں کووڈ - 19 کے دوران تیار کی گئیں، جن میں سے آدھی پاکستان اور آدھی بھارت میں شوٹ کی گئیں، جب کہ دونوں ممالک کی فلم پروڈکشن سے متعلق تکنیکی اور دیگر افرادی قوت کو بھی یکساں رکھا گیا تھا. 

  گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ کے نیویارک فارن پریس سینٹر نے اس منصوبے پر بریفنگ کی میزبانی کی. تقریب کی ماڈریٹر، نیویارک فارن پریس سنٹر کی انفارمیشن آفیسر مہوش صدیقی تھیں.

اس تقریب میں 8 دستاویزی فلموں میں شریک رہے 3 فلمی ماہرین نے شرکت کی. جس میں  پاکستان سے حیا فاطمہ اقبال، بھارت سے سنکلپ میشرم اور امریکہ سے مارکوس گولڈ باس شامل تھے. جبکہ کراچی میں امریکی قونصل خانے میں ثقافتی امور کے شعبہ کے ثقافتی افسر جان ریٹیگن اور 'سیڈز آف پیس' نیویارک کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر رینی ایٹکنسن نے بھی بریفنگ میں شرکت کی. 

  اپنے ورچوئل خطاب میں کراچی میں یو ایس قونصلیٹ کے جان ریٹیگن نے کہا کہ "مجھے آج آپ کے ساتھ ایک پروجیکٹ شئیر کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ کراچی میں یو ایس قونصلیٹ جنرل کو اس کو اسپانسر کرنے پر واقعی فخر ہے. یہ وہ چیز ہے جس نے واقعی اس ٹیم کی مدد کی. میں نے اس پراجیکٹ میں شامل ساری ٹیموں کے ساتھ کام کیا ہے. ظاہر ہے، سیڈز آف پیس نامی این جی او نے اس میں کامیابی  سے اپنا کردار ادا کیا ہے. 

"یہ ایک ایسا پروجیکٹ ہے، جسے قونصل خانے کی ثقافتی امور کی ٹیم نے کچھ سال پہلے تیار کرنا شروع کیا تھا. ہم نے دیکھا کہ ہندوستان اور پاکستان کی ثقافتیں گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں، دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان بات چیت کے امکانات ہو سکتے ہیں. اور اس لیے ہم نے شناخت کیا کہ تخلیقی فنون کو روابط اور زیادہ سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے. اور یہ بھی اجاگر کرنے کے لیے کہ کس طرح پاکستان اور ہندوستان کے لوگ مشترکہ ثقافتوں اور روایات کی وجہ سے مختلف ہیں. وہ بہت سارے مشترکہ مفادات کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اس طرح ہم نے دیکھا کہ ڈیجیٹل مواد واقعی دونوں ممالک کے لوگوں کو جوڑ سکتا ہے. ہے اور اپنا حصہ ڈال سکتا ہے. دونوں ممالک کے درمیان تعمیری مکالمے کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے."جان رئیٹگن نے کہا. 

امریکی فلم ماہر مارکوس گولڈ باس نے کہا کہ "اس پروجیکٹ کے لیے500 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے ہمیں کل 42 ٹیموں کا انتخاب کرنا تھا، اکیس پاکستان سے اور اتنی ہی بھارت سے. یہ ایک مشکل کام تھا، کیونکہ سب نے اپنی پوری تیاری کی ہوئی تھی. ہمیں سب کے انٹرویوز کرنے میں کافی وقت لگا. اب یہ 8 تیار کردہ فلمیں یوٹیوب پر اگلے ماہ جون میں دستیاب ہوں گی. "   

'سیڈز آف پیس' کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر رینی اٹکنسن نے کہا کہ "سیڈز آف پیس ایک این جی او ہے، اور ہم ایک بہتر انصاف پسند اور جامع معاشرہ بنانے کے لیے مختلف لوگوں کے درمیان مل کر کام کرتے ہیں. یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اور اس لیے ہم اسے تخلیقی انداز میں کرنے کے طریقوں کی تلاش میں مسلسل رہتے ہیں، جو میز پر بیٹھ کر بات چیت کرنے سے زیادہ کام کا تقاضا کرتا ہے. 

  ہمیں لوگوں کو اس طرح اکٹھا کرنے کے قابل بنانا چاہیئے کہ وہ موضوع سے جڑے رہ سکیں. اور جب ہم نے اس پروجیکٹ کی تجویز دیکھی، تو ہم نے کہا یہ تو بنا ہی ہمارے لیے ہے. یہ تو بالکل وہی ہے، جو ہم کرنا چاہتے ہیں. اور اسے حقیقت بنانا چاہتے ہیں. ہم نے  بھی درخواست دی اور ہم نے یہ گرانٹ حاصل کی،جس سے یہ آٹھ دستاویزی فلمیں تیار کی گئیں. 

ہم نے اصل میں گرانٹ میں جو بھی چیزیں پلان کی تھیں وہ سب ذاتی طور پر تھیں. یہ پہلا موقع ہے، جب ہمارے ماہرین  پورے پروجیکٹ کے لیے ایک ہی پیج پر ہیں. بالکل ایک ساتھ تھے. اور اس لیے یہ پراجیکٹ حقیقت بنا کہ ہمارے پاس یہ حیرت انگیز فلمیں موجود ہیں، ان تین حیرت انگیز لوگوں کا یہاں ہونا ایک ثبوت ہے. یہ ایک طویل سفر تھا. " 

 اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ساز حیا فاطمہ اقبال نے کہا کہ "ان کے خیال میں اس پروگرام سے جو سب سے اہم چیز مجھے حاصل ہوئی ہے وہ تخیل کی طاقت ہے، کیونکہ، جب ہم اس پروگرام کو شروع کرنے والے تھے، تو میں وہاں موجود تھی. بہت زیادہ امید تھی کہ ہم ایسا کچھ جان سکتے ہیں، لیکن اس بارے میں بہت زیادہ لاعلمی بھی تھی کہ ہم اسے کیسے کر پائیں گے. لیکن جو چیز سب سے اہم تھی یا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ یقین تھا کہ ہمیں واقعی فیصلہ کرنا چاہیے. کچھ کرنے کے لیے، اور یہ کہ اسے کرنے کی لازمی ضرورت ہے. اور ایک بار جب آپ کو ضرورت محسوس ہوتی ہے، تو آپ اسے کرنے کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں. حل بعد میں آتا ہے. اس لیے امید رکھی کہ یہ کام کرنا ہے اور کسی چیز کا یقین رکھنا ہی سب سے اہم کام ہوتا ہے."

بھارتی فلم سازی کے ماہر سنکلپ میشرم نے کہا کہ "میں نے اس پراجیکٹ میں خالصتاً شرکت اس لیے کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے کہ میں دوسری طرف کے لوگوں سے مل سکوں گا اور بات کر سکوں گا. یہی ایک ایسا احساس تھا، جو بہت سارے شرکاء کو اس پراجیکٹ میں میں لایا. کیونکہ یہی ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے دلوں میں محبت ہے، کیا یہ وہی گرمجوشی ہے جو واقعی ایک دوسرے کے لیے ہے. اور اسی طرح، جیسا کہ ٹریلر میں کہا گیا ہے، ہم شروع ہی سے اس کشش کو محسوس کر سکتے تھے جب لوگ اجلاس میں اکٹھے ہوتے تھے، سبھی میں یہ احساس پہلے سے موجود تھا. 

حقیقت یہ ہے کہ بعض مشکلات کا ہم نے بعد میں سامنا بھی کیا، تاہم آخر میں فتح ہوئی. ان مشکلات پر قابو پانے کی وجہ وہ جذبات تھے جو لوگوں کو اکٹھا رکھتے ہیں. لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میں نے جو سب سے زیادہ حاصل کیا ہے، وہ واقعی اس بات کی تصدیق ہے کہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان بہت زیادہ پیار، بہت گرمجوشی اور بہت زیادہ محبت ہے. دوسری جانب ایک بیان بازی ہے جو ہم میڈیا اور ہر چیز میں سنتے ہیں، لیکن یہ واقعی لوگوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ظاہر نہیں ہوتا. "

  ’’روزنامہ پاکستان‘‘ کے ایک سوال کہ کیا ان 8 فلموں کی کہانیوں میں کہیں مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی ہے؟ کے جواب میں بھارتی ایکسپرٹ سنکلپ میشرم نے کہا کہ "لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہندوستان کے لوگ کشمیر کے دیوانے ہیں یا  کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لوگ اس قدر کریزی ہیں، لیکن حقیقت میں ہم کشمیر کے حوالے سے نوجوانوں سے ملے،  ہمیں ان میں اتنی شدت نظر نہیں آتی. یہ منصوبہ حکومتوں کے لیے تلاش کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے. نوجوانوں کو تاریخ کا اتنا جنون نہیں ہے. وہ دراصل آج لوگوں کے درمیان رابطوں کے نئے طریقوں کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں. یہاں تک کہ انہیں کشمیر سے متعلق ایک کہانی بھی نہیں ملی، اس لیے ہمیں اس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی."

اسی سوال کے جواب میں پاکستان کی حیا فاطمہ اقبال نے کہا کہ "وہ نہیں سمجھتیں کہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم کشمیر پر بات کریں گے یا نہیں. مجھے اس پر بات کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا. کسی مسئلے پر بات کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں. بھارت اور پاکستان کے درمیان اس خاص مسئلے کی کوریج یا دیگر کئی معاملات پر ہمیشہ غصے سے بات کی جاتی ہے. لیکن ان کے خیال میں بات کرنے کے لیے اور بھی کئی طریقے ہو سکتے ہیں."

حیا فاطمہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "جب کشمیر کی بات آتی ہے تو وہ سمجھتی ہوں کہ کشمیر کے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہیں. وہ نہیں سمجھتیں کہ مین اسٹریم پاکستانیوں یا ہندوستانیوں کو اس بارے میں کچھ کہنا چاہیے. آپ کو سمجھنا ہوگا کہ غصہ ہی کہانی سنانے کا واحد طریقہ نہیں ہے. ایسا نہیں ہے کہ لوگ اہم مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں، بس یہ ہے کہ وہ اب سنجیدہ مسائل پر بات کرنے کے لیے تخلیقی اور تفریحی طریقے تلاش کر رہے ہیں. جو آپ کو ان تمام فلموں میں نظر آئیں گے، جب وہ رواں سال جون میں ریلیز ہوں گی.

لوگوں کا یہاں ہونا ایک ثبوت ہے. یہ ایک طویل سفر تھا. " 

 اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ساز حیا فاطمہ اقبال نے کہا کہ "ان کے خیال میں اس پروگرام سے جو سب سے اہم چیز مجھے حاصل ہوئی ہے وہ تخیل کی طاقت ہے، کیونکہ، جب ہم اس پروگرام کو شروع کرنے والے تھے، تو میں وہاں موجود تھی. بہت زیادہ امید تھی کہ ہم ایسا کچھ جان سکتے ہیں، لیکن اس بارے میں بہت زیادہ لاعلمی بھی تھی کہ ہم اسے کیسے کر پائیں گے. لیکن جو چیز سب سے اہم تھی یا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ یقین تھا کہ ہمیں واقعی فیصلہ کرنا چاہیے. کچھ کرنے کے لیے، اور یہ کہ اسے کرنے کی لازمی ضرورت ہے. اور ایک بار جب آپ کو ضرورت محسوس ہوتی ہے، تو آپ اسے کرنے کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں. حل بعد میں آتا ہے. اس لیے امید رکھی کہ یہ کام کرنا ہے اور کسی چیز کا یقین رکھنا ہی سب سے اہم کام ہوتا ہے."

بھارتی فلم سازی کے ماہر سنکلپ میشرم نے کہا کہ "میں نے اس پراجیکٹ میں خالصتاً شرکت اس لیے کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے کہ میں دوسری طرف کے لوگوں سے مل سکوں گا اور بات کر سکوں گا. یہی ایک ایسا احساس تھا، جو بہت سارے شرکاء کو اس پراجیکٹ  میں لایا. کیونکہ یہی ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے دلوں میں محبت ہے، کیا یہ وہی گرمجوشی ہے جو واقعی ایک دوسرے کے لیے ہے. اور اسی طرح، جیسا کہ ٹریلر میں کہا گیا ہے، ہم شروع ہی سے اس کشش کو محسوس کر سکتے تھے جب لوگ اجلاس میں اکٹھے ہوتے تھے، سبھی میں یہ احساس پہلے سے موجود تھا. 

حقیقت یہ ہے کہ بعض مشکلات کا ہم نے بعد میں سامنا بھی کیا، تاہم آخر میں فتح ہوئی. ان مشکلات پر قابو پانے کی وجہ وہ جذبات تھے جو لوگوں کو اکٹھا رکھتے ہیں. لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میں نے جو سب سے زیادہ حاصل کیا ہے، وہ واقعی اس بات کی تصدیق ہے کہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان بہت زیادہ پیار، بہت گرمجوشی اور بہت زیادہ محبت ہے. دوسری جانب ایک بیان بازی ہے جو ہم میڈیا اور ہر چیز میں سنتے ہیں، لیکن یہ واقعی لوگوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ظاہر نہیں ہوتا. "

  ’’روزنامہ پاکستان‘‘ کے ایک سوال کہ کیا ان 8 فلموں کی کہانیوں میں کہیں مسئلہ کشمیر کا ذکر بھی ہے؟ کے جواب میں بھارتی ایکسپرٹ سنکلپ میشرم نے کہا کہ "لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہندوستان کے لوگ کشمیر کے دیوانے ہیں یا  کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے لوگ اس قدر کریزی ہیں، لیکن حقیقت میں ہم کشمیر کے حوالے سے نوجوانوں سے ملے،  ہمیں ان میں اتنی شدت نظر نہیں آتی. یہ منصوبہ حکومتوں کے لیے تلاش کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے. نوجوانوں کو تاریخ کا اتنا جنون نہیں ہے. وہ دراصل آج لوگوں کے درمیان رابطوں کے نئے طریقوں کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں. "

اسی سوال کے جواب میں پاکستان کی حیا فاطمہ اقبال نے کہا کہ "وہ نہیں سمجھتیں کہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم کشمیر پر بات کریں گے یا نہیں. مجھے اس پر بات کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا. کسی مسئلے پر بات کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں. بھارت اور پاکستان کے درمیان اس خاص مسئلے کی کوریج یا دیگر کئی معاملات پر ہمیشہ غصے سے بات کی جاتی ہے. لیکن ان کے خیال میں بات کرنے کے لیے اور بھی کئی طریقے ہو سکتے ہیں."

حیا فاطمہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "جب کشمیر کی بات آتی ہے تو وہ سمجھتی ہوں کہ کشمیر کے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہیں. وہ نہیں سمجھتیں کہ مین اسٹریم پاکستانیوں یا ہندوستانیوں کو اس بارے میں کچھ کہنا چاہیے. آپ کو سمجھنا ہوگا کہ غصہ ہی کہانی سنانے کا واحد طریقہ نہیں ہے. ایسا نہیں ہے کہ لوگ اہم مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں، بس یہ ہے کہ وہ اب سنجیدہ مسائل پر بات کرنے کے لیے تخلیقی اور تفریحی طریقے تلاش کر رہے ہیں. جو آپ کو ان تمام فلموں میں نظر آئیں گے، جب وہ رواں سال جون میں ریلیز ہوں گی. " 
(بلاگر طاہرمحمود چوہدری نیویارک / اقوام متحدہ میں “روزنامہ پاکستان” کے بیوروچیف ہیں)

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

  ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -