”مارو اور پھینک دو“ کا الزام
اس میں دو آراءنہیں ہیںکہ امریکہ نے اس خطے میں امن غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی ناکام پالیسیوں کی بدولت آج اسی کے تربیت یافتہ افغان فوجی نیٹو اور امریکی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 11سال قبل افغانستان میں طالبان کی جس ملا عمر حکومت کو ختم کر کے وہاں ”عوام“ کی حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کیا تھا ،آج افغانستان کی الیکشن کمیشن اتھارٹی یہ اعلان کرتی دکھائی دیتی ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں افغان طالبان اور حزب اسلامی سے متعلق جماعتیں بھی حصہ لے سکتی ہیں۔ اگر یہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ہے، تو پھر ناکامی کیا ہوتی ہے؟ امریکہ تو آج تک ویت نام کی جنگ کو بھی فتح ہی قرار دیتا آیا ہے۔ امریکہ آج ایک سپر پاور ہے، وہ طاقت کے نشے میں مخمور ہے، وہ انسانوں کو جس طرح چاہے مارے، اُسے اس کی ”اجازت“ ہے۔ اس کا ہر کام انسانیت کی فلاح میں ہوتا ہے۔ اس نے افغانستان پر حملہ کر کے جنوبی ایشیائی خطے کے ممالک کے امن کو تہہ و بالا کر دیا، تو پوری دُنیا نے اس کار ِ خیر پر اس کی بھرپور تعریف کی ہے، بلکہ دُنیا بھر سے47ممالک کے فوجی بھیگی بلی کی طرح امریکیوں کے ساتھ ساتھ پھر رہے ہیں، وہ مر بھی رہے ہیں اور مار بھی رہے ہیں۔
اب جب پلٹ کے امریکہ کے اپنے تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی کے ”ڈسپلنڈ سپوتوں“ نے نیٹو اور دیگر فوجیوں کو پھڑکانا شروع کیا ہے، تو افغانستان میں تعینات امریکن کمانڈر افغان نیشنل آرمی کے پرچم تلے تربیت حاصل کرنے والے فوجیوں کو سب سے بڑا خطرہ قرار دینے لگے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح سے جنوبی ایشیائی خطے کے ممالک کو دہشت گرد ی کی آگ میں جھونکا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ نے پہلے خود ان غیر ریاستی فورسز کو تیار کیا اور انہیں روس کے خلاف استعمال کیا، پھر سب کو چھوڑ چھاڑ کر اِس خطے سے بھاگ نکلا۔ اس بے وفائی کا اقرار تو ہیلری کلنٹن خود بھی کرتی ہیں کہ ہم نے روس کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔
امریکہ بجائے اس کے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے ، وہ آج بھی سازشوں میں مصروف ہے۔ حال ہی میں جنیوا میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں امریکی مندوب نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خالصتاً اندرونی معاملے، بلوچستان کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی ہے۔ اُس نے بغیر کسی شرم اور حیل و حجت کے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ بلوچستان میں سیکیورٹی ادارے ”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اگر امریکی مندوب کے دل میں انسانیت کا ذرا سا بھی درد ہوتا تو وہ پاکستان کی اُن قربانیوں کو مد نظر رکھتا، جو وہ گزشتہ11سال سے دے رہا ہے۔ پاکستان کے40ہزار سے زائد شہری اور چار ہزار کے قریب سیکیورٹی اہلکار معاشرے کو شدت پسندی سے پاک کرنے کی خاطر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ امریکی مندوب کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے 90فیصد مسائل وہ ہیں جو امریکہ کے اس خطے میں آنے کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔
اب11سال کی ”محنت ِشاقہ“ کے بعد کم از کم جنوبی ایشیائی خطے کے لوگ اتنا تو سمجھ گئے ہیں کہ امریکہ کو صرف اینا ایجنڈا عزیز ہے۔ اس کے لئے بھلے ملکوں کے ملک تباہ و برباد ہو جائےں، اسے اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ امریکی مندوب نے جنیوا میں جو تقریر فرمائی ہے ،اُس کے ایک ایک حرف سے اُس کی پاکستان سے نفرت چھلکتی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی وزیر خارجہ نے جنیوا کانفرنس میں امریکی ڈرون حملوں کو نشانہ بنایا تھا ۔شاید اسی وجہ سے امریکی مندوب نے جواباً تقریر میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں پر الزام لگایا ہے کہ سیکیورٹی دستے ”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ امریکی مندوب کو اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ صرف الزام تراشی سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوا کرتے۔ صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں زمینی حقائق مختلف ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر لوگ وطن سے محبت کرتے ہیں اور وہ سب اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ اس خطے سے واپس جائے تاکہ امن بحال ہو سکے۔ یہ باتیں آن ریکارڈ موجود ہیں اور دُنیا ان سے واقف ہے کہ کس طرح امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں ”اکاموڈیٹ“ کر کے اسے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بلوچستان کے اندر آپریٹ کر سکے۔ مختلف ممالک کی ایجنسیاں پاکستان کے امن اور اس کے اداروں کے در پے ہیں۔ اہل اقتدار اور اہل فکر اس کا ادراک رکھتے ہیں اور اس کا قلع قمع کرنے کی آزورکھتے ہیں اور ادارے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے امریکی مندوب بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کردار ایک سے نہیں ہوتے ،کچھ ”لعنتی کردار“ بھی ہوتے ہیں۔ قوم کو ویسے بھی ہر قسم کے اندرونی و بیرونی کرداروں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ ٭