وحشت سرائے فکر سے الجھوں گا ایک روز۔۔۔
آنکھوں سے چن کے اشک ستارے بناؤں گا
نو خاستہ طلسم کی شمعیں جلاؤں گا
شاید وہ اضطراب کے معنی سمجھ سکے
جب گیت بھیرویں کے سر ِ شام گاؤں گا
وحشت سرائے فکر سے الجھوں گا ایک روز
مشکیزۂ خیال میں کائی اگاؤں گا
رقصاں رہے گا نیند کی شہ رگ میں رتجگا
اس طرح شب کی جھیل میں کنکر گراؤں گا
سایہ بھی ہمکلام مسافر سے ہو کبھی
پیڑوں کو بولنے کا سلیقہ سکھاؤں گا
کچھ غم ہیں جن کے دم سے رواں ہے یہ کائنات
خوش کن اداسیوں کی کہانی سناؤں گا
دیکھوں گا مصلحت کی طوائف کا رقص بھی
مقتل سے جب انا کا جنازہ اٹھاؤں گا
ایفائے عہد ِ باری تعالیٰ پہ ہے یقیں
عباس موج موج عریضے بہاؤں گا
کلام :حیدر عباس