پنجاب یونیورسٹی میں ”ارمغان“ کی روایت

پنجاب یونیورسٹی میں ”ارمغان“ کی روایت
پنجاب یونیورسٹی میں ”ارمغان“ کی روایت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


صدر شعبہ اُردو اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے چند سال قبل ممتاز ادیب، شاعر اور محقق جناب خورشید رضوی کی مختلف تنقیدی اور تحقیقی مزاج کی تحریروں کا مجموعہ مرتب کر کے اسے ”ارمغانِ خورشید رضوی“ کے عنوان سے شائع کیا تو ہم نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ علمی دُنیا میں جس ”ارمغان“ کی روایت چلی آتی ہے، ان کا ارمغان اس کے بالکل برعکس ہے۔ روایت یہ ہے کہ کسی علمی و ادبی شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اہل ِ علم سے ٹھیٹھ علمی اور تحقیقی مقالات لکھوا کر اُنہیں مجموعے کی شکل میں شائع کیا جاتا ہے تو اسے ”ارمغان“ (تحفہ)کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ارمغان ڈاکٹر وحید قریشی  ارمغان ڈاکٹر سید عبداللہ اور ارمغان ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی بطورِ مثال دیکھے جا سکتے ہیں۔
حال ہی میں جناب ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی یاد میں ”ارمغانِ جمیل“ منظر عام پر لائے ہیں۔اس میں موصوف نے ستر صفحات پر مشتمل اپنا ایک طویل مضمون بعنوان: ”تعلق اور تحقیق کی خوشبو“ شامل کیا ہے۔


اس تحریر میں انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم سے اپنے تعلقات کی سرگزشت بیان کی ہے۔ اس میں انہوں نے ڈاکٹر جالبی کے خطوط بھی شامل کئے ہیں،جن کے عکس بھی دیئے ہیں۔ خطوط کے بعض مندرجات کے بارے میں توضیحی نوٹس بھی رقم فرمائے ہیں،اس طرح سے انہوں نے بزعم خویش اپنے مضمون کا تحقیقی مرتبہ و مقام بلند کرنے کی سعی فرمائی ہے۔”ارمغانِ جمیل“ میں شامل دیگر تحریریں ان کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علموں کی ہیں۔ ان میں جالبی مرحوم کی علمی خدمات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے، مثلاً ان کی ترجمہ نگاری، تاریخ نگاری، شخصیت نگاری، جریدہ نگاری،نعت نگاری وغیرہ۔یہ امر ہے تو یقینا قابل ِ ستائش کہ اس طرح سے طلبا کی لکھنے کے حوالے سے تربیت ہوتی ہے، یہ الگ بات کہ ان کاوشوں کا وہ معیار نہیں بن سکا کہ جس کا عام طور پر ”ارمغان“ تقاضا کرتاہے۔ اس کا بڑا ثبوت خود ڈاکٹر زاہد کا یہ اعتراف ہے:


”اپنے تلامذہ کے مذکورہ مضامین کو نظرثانی اور نظر ثالث و رابع کی بھٹی سے گذار کر صورتِ موجود میں مرتب کیاگیا ہے“۔(ص8:)
اس پُرتکلف اور پُرتصنع بیان کا آسان زبان میں مفہوم یہ ہے کہ شاگردوں کی تحریروں کی دو دو، تین تین اور چار چار دفعہ درستی کی گئی ہے۔ قاری سوچتا ہے کہ آپ نے جو اتنی زحمت اٹھائی تو کیا اس سے بہتر یہ نہ تھا کہ آپ سکہ بند اہل ِ ادب سے یہ کام کرواتے، جس کا کوئی معیار بھی ہوتا۔  ارمغان کے لئے لکھے جانے والے مقالات کے عنوانات کا انتخاب خود اہل علم ہی کرتے۔ صرف جالبی مرحوم ہی کو ”تختہ مشق“ نہ بنایا جاتا۔ڈاکٹر زاہد کی اس ”ارمغاں گردی“ کی تقلید فارسی زبان و ادب کے استاد مکرم جناب ڈاکٹر محمد ناصر نے بھی کی ہے۔انہوں نے اپنے استاد ڈاکٹر آفتاب اصغر مرحوم کی تحریریں مرتب کی ہیں اور کتاب کا عنوان رکھا ہے:”ارمغان آفتاب“۔ بہتر تھا کہ وہ انہیں الگ سے مرتب کر کے ترتیب و تہذیب دیتے۔ ایسے ارمغان ترتیب دینے سے ارمغان کی روایت مجروح ہوتی ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ڈاکٹر آفتاب اصغر فارسی زبان و ادب کے ایک معروف سکالر تھے اور ان کو ”ارمغان“ کے حوالے سے یاد کرنا اچھی بات ہے،لیکن یہ غلط ہے کہ انہی کی تحریروں کو اکٹھا کر کے مجموعے کو  ”ارمغان“ کا نام دے دیا جائے۔مزید غضب یہ کہ وہ تحریریں اپنے معیار کے اعتبار سے بھی محل ِ نظر ہیں۔


اصل مسئلہ یہ ہے کہ اورینٹل کالج کے بیشتر اساتذہ ترقی کے مراحل تیزی سے طے کرنے کے لئے کتابوں اور مقالوں کی گنتی پوری کرنے میں ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں پنجاب یونیوسٹی کے ایک ایسے ادارے کی طرف،جس نے چار ارمغان شائع کئے ہیں، اور وہ واقعی ارمغان کہلانے کے مستحق ہیں۔وہ ادارہ ہے”انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز“  اور جن چار شخصیات کی ارمغانوں کی صورت میں یاد تازہ کی گئی ہے، ان کے اسمائے گرامی ہیں:
٭…… علامہ علاؤالدین صدیقی(مرتبین: ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر حافظ محمود اختر)
٭…… ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی(مرتبین:ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی)
٭…… پروفیسر حافظ یار محمد(مرتبین: ڈاکٹر جمیلہ شوکت،ڈاکٹر سعد صدیقی)
٭…… پروفیسر ملک محمد اسلم(مرتبین: ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر جمیلہ شوکت)


ان ارمغانوں کے مشمولات یہ کھلی کھلی گواہی دیتے ہیں کہ مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے موضوع پر غیر معمولی محنت کی ہے اور ریسرچ کے اصولوں کو مکمل طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ موضوعاتی تنوع ایک الگ خوبی ہے۔ پیشکش کا معیار بھی بہت عمدہ ہے، کئی مقالات مَیں نے گہری دلچسپی سے پڑھے اور مجھے پروف کی ایک غلطی نہیں ملی۔ سچی بات ہے کہ مقالہ نگاروں کا ذوقِ تحقیق دیکھ کر ملت اسلامیہ کے بارے امید سی ہو جاتی ہے کہ ہمارا مستقبل اتنا بُرا نہیں ورنہ عہد ِ رواں میں ہم ہر طرف خانہ ویرانی کا  جو منظر دیکھ رہے ہیں، وہ حوصلے پست کر دینے والا ہے۔!!

مزید :

رائے -کالم -