تاریخ ِانسانی میں مساوات کا بہترین نمونہ !
مساوات ، نعوذباللہ یہ نہیں کہ جاہل اور عالم یکساں ہیں، یا یہ کہ دانا اور بے وقوف یکساں ہیں یا یہ نہیں کہ ایک کام کرنے والا ہے اور ایک ناکارہ ہے تویکساں حکم میں آجائیں ، یہ بھی نہیں ایک وفادار ہے اور ایک بے وفا ہے وہ بھی یکساں حکم میں آجائے ، اگر ایسا ہو تو یہ انسانی تہذیب و تمدن کے قتل کرنے کے مترادف ہے ۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ :
ایک ملک کے اندر رہنے والے ، ایک سلطنت میں رہنے والے ، ایک علاقے میں رہنے والے ، ایک دین سے تعلق رکھنے والے ،معاشرتی طور پر، اخلاقی طور پر ، قانونی طور پر یکساں حیثیت رکھتے ہیں، وہ حق جو امیر کو ملتا ہے وہی حق غریب کو بھی ملے گا۔ زندگی کا زندگی کے معاملات کا وہ حق جو ایک دولت مند کو ملتا ہے ایک غریب کو بھی وہی ملے گا، جو ایک کالے کو ملتا ہے گورے کا بھی وہی حق ہے، جو گورے کو ملتا ہے ، کالے کو بھی وہی ملے گا۔
قانون کے لحاظ سے سب یکساں، معاشرتی معاملات کے حوالے سے سب یکساں ، زندگی کے تمام معاملات میں سب یکساں حکم رکھتے ہیں، یہ ہے اسلامی مساوات۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، لوگو! اپنے آبا_¶ اجداد پر غرور اور تکبر کیوں کرتے ہو؟ اگر تمہارے یہ آبا_¶ اجداد آگ کے اندر ڈال دیئے گئے ، اگر ان کے اعمال ان کو آگ کے اندر لے گئے تو غرور کس بات کا، تکبر کس بات کا ؟ اور اگر تمہارے آبا_¶ اجداد جنت میں داخل کئے گئے اور تمہاری زندگیاں جہنم کی طرف لے جانے والی ہیں تو غرور کس بات کا ؟
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ”لوگو یاد رکھو ، اللہ نے جاہلیت کے سارے تکبر، سارے غرور، سارے فخر، ساری عصبیتیں ، سارے تعصب تم سے دور کر دیئے ہیں، اور آبا_¶ اجداد پر بھی غرور اور تکبر کو ختم کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ تم سارے کے سارے آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔“ مٹی غرور اور تکبر کی چیز تو نہیں ہے ، مٹی تو عاجزی کی چیز ہے ، مٹی تو، مسکینی کی شے ہے ۔ آدم کی اولاد، تم سارے کے سارے ایک آدم کی اولاد ہو، تمہاری حقیقت ایک ہے تو پھر غرور اور تکبر ، عصبیت اور تعصب کس بات کا۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :”اللہ رب العزت نے میری طرف وحی کی ہے کہ میں انکساری اختیار کروں، تواضع اختیار کروں۔“
رسول اللہ نے جب مکہ فتح کیا تو اس وقت یہ فرمایا تھا کہ لوگو:سارے غرور ختم کر دیئے گئے ، سارے تکبر ختم کر دیئے گئے ۔ اور حجة الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا : ”لوگو یاد رکھو، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے ، اگر فضیلت ہے ، اگر عزت ہے، اگر کرامت اور بزرگی ہے تو نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے ہے ۔“
حضرت عمر فاروقؓ جب امیرالمومنین تھے خلیفة المسلمین تھے اور جاہ و جلال کا دبدبے ، طنطنے اور ولولے کا یہ عالم کہ وقت کی بڑی طاقتیں ایران اور روم نے اپنے درباریوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی کہ ان کے دربار میں عمر کا نام نہ لیا جائے کہ جب عمر کا نام آتا ہے تو درباریوں کے وجود پرکپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔ایسی جاہ و حشمت والا، ایسی ہیبت والا، ایسے جاہ و جلال والا، بیت المقدس کے فتح کے وقت دمشق کی طرف گیا، عالم کیا ہے کہ امیر الم_¶منین کے ساتھ ایک خادم ہے ، امیرالمومنین نے دیکھا کہ اونٹ ایک ، آدمی دو ہیں ، چنانچہ طے کیا کہ کچھ فاصلہ میں اونٹ پر بیٹھوں گا، کچھ فاصلہ خادم بیٹھے گا، ایک فاصلے تک امیرالمومنین اونٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور خادم کے ہاتھ میں نکیل ہے اور چلا جا رہا ہے ۔ پھر جب وہ فاصلہ طے ہوا تو پھر امیر المومنین کے ہاتھ میں اونٹ کی لگام آگئی اور امیر المو_¿منین کی جگہ پہ امیرالمو_¿منین کا خادم اونٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اسی طرح فاصلہ طے کرتے کرتے جب یروشلم میں داخلے کا وقت آیا تو امیرالمومنین کے غلام کے بیٹھنے کی باری تھی۔
غلام نے کہا، امیرالمومنین غیر مسلموں میں جا رہے ہیں، آپ کے منصب کا تقاضا ہے ، کہ آپ اوپر بیٹھیں، غلام ہاتھ میں لگام پکڑتا ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ”میں تمہارا حق نہیں مار سکتا، اسلام نے مساوات کا حکم دیا ہے ، میں اپنی باری بیٹھ چکا ہوں اب تمہاری باری ہے ۔“ امیرالمو_¿ منین کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار ہے ، غلام اوپر بیٹھا ہوا ہے ، یروشلم میں داخل ہوتے ہیں، غیرمسلموں نے دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ جو اونٹ پر بیٹھا ہے یہ امیر المو_¿منین ہے ، مسلمانوں سے پوچھا جو اونٹ پر سوار ہیں یہ امیرالمو_¿منین ہیں ؟
مسلمانوں نے کہا نہیں وہ امیر المو_¿منین کا غلام ہے،امیرالمو_¿منین وہ ہیں جنہوں نے اونٹ کی لگام پکڑی ہوئی ہے ۔
عیسائیوں نے مساوات کے اس سبق کو دیکھا تو کہا واقعتاً یہ قوم پوری دنیا کو فتح کرنے کا حق رکھتی ہے ، اس قوم نے اگر ہم پر فتح پائی ہے تو ہمیں افسوس نہیں۔یہ تو حضرت عمر فاروقؓ کا واقعہ ہے خود رسول اللہ کا واقعہ ہے ، غزوہ_¿ بدر کا موقع ہے، سواریاں کم تھیں ، افراد کی تعداد بھی کم تھی کہ صرف تین سو تیرہ لیکن سواریاں اس سے کہیں کم کئی کئی افراد کے حصے میں ایک ایک سواری آئی، خود رسول اللہ کو اکیلے سواری نہیں ملی تھی ، بلکہ آپ کی سواری میں دو اور بھی حصے دار ہیں، ایک حضرت علیؓ ، ایک حضرت مرثدؓ تھے ۔ حالانکہ رسول اللہ کی عظمت، آپ کی شان، آپ کی شوکت، آپ کا مقام، آپ کا رتبہ ایسا کہ جب صلح حدیبیہ کے وقت قریش ِمکہ کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے ) مسلمانوں کے پاس آئے تو واپس جا کر انہوں نے کہا اے قریش کے لوگو! تم محمد ﷺ کے ماننے والوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے کہ میں نے دنیا کے بادشاہوں کے درباروں کو دیکھا، ان کے مقربوں کو دیکھا، لیکن جس طرح عزت کرتے ہوئے ، جانوں کو نثار کرتے ہوئے، میں نے محمد ﷺ کے جان نثاروں کو دیکھا ہے کسی اور کو نہیں دیکھا، میں نے تو یہ دیکھا کہ اگر انہیں کسی چیز کی حاجت ہوتی ہے تو لوگ ایک دوسرے پر گرتے ہوئے تعمیل میں بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں، وضو کے لئے پانی منگواتے ہیں تو لوگ ایک دوسرے پر گرتے ہوئے پانی لانے کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں اور وضو کے پانی کے قطرے زمین پر نہیں گرنے دیتے کہ ہر ایک لپک لپک کر پانی کے ان قطروں کو ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے جسم پر مل لیتا ہے اور میں نے تو یہ دیکھا کہ محمد ﷺ منہ سے تھوکتے نہیں کہ لوگ بے قرار ہو کر ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں ۔“
مسلمانوں کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت کا یہ عالم کہ آج بھی مادّہ پرستی کے اس گئے گزرے دور میں لوگ سید المرسل کے جوتے کی خاک کی عظمت پہ قربان ہونا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ، لیکن رسول اللہ نے دنیا کے سامنے مساوات کا ایک سبق رکھنا تھا، چنانچہ غزوہ_¿ بدر کے موقع پر دیگر صحابہ کی طرح خود اس مساوات کے اندر شریک ہوئے اور پھر کون ہے جو غزوہ_¿ خندق کے حالات پڑھنے کے بعد بھی اسلامی مساوات کا قائل نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کہ جن کے اشاروں پر لوگ جانیں قربان کر دیں ، عام مسلمانوں کی طرح کدال چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کون ہے ، جس نے غزوہ_¿ خندق میں یہ نہیں پڑھا کہ اوروں کے پیٹوں پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا اور محمد عربیﷺ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے اس سے بڑھ کر مساوات کا عالم کیا ہوگا جہاں دوسرے بھوکے ہیں تو خود سیدالرسل ﷺ بھی بھوکے ہیں !
اسلامی مساوات یہ ہے ، حق یکساں زندگی کا، معاملہ یکساں معاشرے کا، قانون یکساں سب پر ایک عدالت میں ایک عام شخص بھی کھڑا ہے اور امیرالمو_¿منین بھی قاضی کے سامنے کھڑا ہے ۔
حضرت علیؓ اور حضرت عمر فاروقؓ بیٹھے ہوئے باہمی دلچسپی کی گفتگو کر رہے تھے ، ایک شخص امیرالمو_¿منین حضرت عمر فاروقؓ کے پاس آیا اور آکر حضرت علیؓ کی شکایت کی، حضرت علیؓ نے میرا فلاں حق مارا ہے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علیؓ سے کہا، ابوالحسن اس کے برابر جا کرکھڑے ہو جا_¶، جب یہ کہا تو حضرت علیؓ برابر تو جاکر کھڑے ہوئے لیکن چہرے پہ ذرا سی ناگواری کا تا_¿ثر ابھرا ، جب فریقین کے دلائل سنے گئے ، تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس شخص نے جھوٹ بولا ہے ، حضرت علیؓ پر کوئی شکایت قائم نہیں کی جا سکتی، چنانچہ مقدمہ برخواست ہوگیا اور حضرت علیؓ باعزت طور پر مقدمے سے بری قرار دیئے گئے ۔ حضرت علیؓ آکر بیٹھے تو اسی طرح پھر باہمی دلچسپی کی گفتگو شروع ہو گئی، حضرت عمر فاروقؓ نے دریافت کیا، ابوالحسن !میں نے جب تجھے یہ کہا تھا کہ اس کے برابر کھڑے ہو جا_¶ تو تمہارے چہرے پر ناگواری کا کچھ تا_¿ثر ابھرا تھا، وہ کیوں ابھراتھا؟
کہا امیرالمو_¿منین ، اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے مجھے اس کے برابر کھڑا کیا، میرے دل میں ناگواری کا تا_¿ثر اس لئے ابھرا کہ آپ نے مجھے ابوالحسن کہا، مجھے کنیت سے مخاطب کیا، جبکہ کنیت سے مخاطب کرنا عزت کا باعث ہوتا ہے ، میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں یہ شخص یہ نہ سمجھے کہ امیرالمومنین نے مدعی اور مدعا علیہ کو یکساں نہیں سمجھا بلکہ مدعی کو مدعا علیہ سے بڑھا دیا ہے ۔
حضرت عمر فاروقؓ کے خلاف ایک اعرابی نے مقدمہ دائر کیا، حضرت زیدؓ قاضی تھے جب حضرت زیدؓ کے پاس مقدمہ گیا تو حضرت زیدؓ نے امیرالمو_¿منین حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ عزت کا سلوک کیا ، حضرت عمر فاروقؓ نے اسی وقت ڈانٹ دیا، کہا زید !تم عدالت کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ، اس وقت میں امیرالمومنین کی حیثیت سے نہیں، مدعا علیہ کی حیثیت سے تمہارے سامنے کھڑا ہوں، تم مجھے عزت دے رہے ہو، مدعی کو عزت نہیں دے رہے ، یہ تم مدعی کا پہلا حق مار رہے ہو۔“
رسول اللہ کے ہاں مساوات کا کیا عالم ہے ، اس وقت اس معاشرے میں غلام معاشرے کے سب سے ہیچ سمجھے جانے والے لوگ تھے ، لیکن رسول اللہ نے ایک غلام حضرت زیدؓ کو اپنا بیٹا قرار دے رہے ہیں، صرف یہی نہیں، مساوات کے حوالے سے سب سے نازک مرحلہ اس وقت آتا ہے جب باہمی شادی بیاہ کا معاملہ ہوتا ہے ، کوئی کتنا ہی مساوات کا علمبردار کیوں نہ ہو، ذرا شادی بیاہ کے معاملات میں اس کے خاندان کے اندر کسی ایسے فرد کے نکاح کا رشتہ لے جا کر دیکھئے جس فرد کو معاشرے کے نچلے طبقے سے سمجھا جاتا ہے ، پھر پتہ چلے گا کہ مساوات کا یہ علمبردار صحیح معنوں میں مساوات کا علمبردار ہے یا نہیں۔
اس وقت قریش اپنے آپ کو ساری دنیا سے برتر و اعلیٰ سمجھتے تھے ، رسول اللہ نے اس غرور اور تکبر کے ناک کو مٹی میں ملا دیا کہ حضرت زیدؓ جن کو عکاظ کے بازار سے حضرت خدیجة الکبریٰؓ کے ماموں زاد حکیم بن حزام خرید کر لائے تھے ، لیکن رسول اللہ نے اس کا رشتہ قریشیوں کے کسی عام خاندان میں نہیں، اپنی سگی پھوپھی کی بیٹی کے ساتھ کردیا، اور اس پھوپھی کے ساتھ جس کے ساتھ رسول اللہ کو سب سے زیادہ لگا_¶ تھا ، اس کی بیٹی کے ساتھ حضرت زیدؓ کا نکاح کیا۔
یثرب کے رہنے والے جو بعد میں انصار کہلائے ان کے غرور اور عصبیت کا یہ عالم ہے کہ پورے خطہ_¿ عرب میں قریش کو اعلیٰ سمجھا جاتا تھا لیکن عبدالمطلب نے یثرب کی ایک خاتون لیلیٰ کے لئے شادی کا پیغام بھیجا ، یثرب والوں نے کہا، شادی کردیں گے لیکن لیلیٰ یثرب سے باہر نہیں جائے گی، یثرب میں ہی رہے گی، اگر عبدالمطلب کو یہ قبول ہے تب رشتہ دیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں ۔لیکن اسلام کے آنے کے بعد یہ عالم ہوا کہ حضرت بلالِ حبشیؓ ، وہ بلال جو غلام ہے ،غلام ابنِ غلام ہے ، رنگ کا بھی کالا، غلاموں کے طبقے سے تعلق رکھنے والا، لیکن جب اسلام لایا تو خود حضرت عمر فاروقؓ ، جو قریش کے معزز ترین فرد ہیں وہ کہا کرتے تھے ۔”ابوبکرؓ جو ہمارے سردار ہیں، انہوں نے ہمارے دوسرے سردار بلالؓ کو آزاد کروایا ہے۔“ حضرت بلالؓ کبھی تشریف لاتے تو حضرت عمر فاروقؓ اٹھ کر آگے کی طرف عزت و استقبال کے لئے چل پڑتے کہ سیدنا بلالؓ تشریف لا رہے ہیں۔“
وہ بلالؓ ایک روز مسجد نبوی میں آئے اور آ کر کہا لوگو، میں شادی کا خواہشمند ہوں۔میں غلام زادہ، میرے پاس رہنے کے لئے مکان بھی نہیں ہے ، میرے پاس مال بھی نہیں ہے ، میرے پاس جائیداد بھی نہیں ہے ، میرے پاس تن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی کپڑا بھی نہیں ہے ، اس خطہ_¿ عرب کے اندر میری قوم نہیں، میرا قبیلہ نہیں، میرے رشتہ دار نہیں، عزیز و اقارب نہیں، لیکن میں شادی کا خواہشمند ہوں، کوئی ہے جو مجھ جیسے فرد کو رشتہ دے ۔“
وہی یثرب جہاں کبھی عبدالمطلب کے ساتھ رشتے کرنے کے لئے شرطیں عائد ہوتی تھیں، جب بلالؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا (تاریخ میں آتا ہے کہ ) یثرب کے کئی خاندان بے قرار ہو گئے کہ اے کاش بلالؓ ہمارے خاندان کے ساتھ رشتہ طے کرلے ۔
ایک عورت زینب بنت حنظلہ تھی، اس کا دادا عرب کا بڑا معتبر ، بڑا محترم فرد، اتنا محترم کہ عرب کا مشہور شاعر امرالقیس اس کا مدّاح تھا، اس عورت کی شادی کس کے ساتھ ہوئی ؟ حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ کے ساتھ یعنی غلام زادے کے ساتھ۔ اسی طرح ولید بن عتبہ مکے کا بہت بڑا سردار، حضرت ابو حذیفہؓ کا بھائی، اس ولید بن عتبہ کی بیٹی فاطمہ کی شادی کس کے ساتھ ہوئی؟ حضرت ابوحذیفہ کے غلام ”سالم“کے ساتھ ، اسلام میں مساوات یہ ہے کہ قانون کا معاملہ ہو، کوئی اونچ نیچ نہیں، یہ نہیں کہ دولت کی، وجہ سے ، امارت کی وجہ سے ، دولت مندی کی وجہ سے یا خاص طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ، کسی منصب کی وجہ سے ، حسب اور نسب کی وجہ سے کوئی فرد قانون کی گرفت سے بچ جائے اور کوئی دوسرا قانون کی گرفت میں آ جائے ۔
رسول اللہ کے حوالے سے واقعہ آپ سبھی نے سنا ہوا ہے کہ جب بنو مخزوم کی عورت فاطمہ کی بات رسول اللہ کے سامنے آئی، لوگوں نے سفارش کی کہ سزا معاف کردی جائے کہ کہیں اس کا قبیلہ ناراض نہ ہو جائے ، رسول اللہ نے ارشاد فرمایا یہ تو بنو مخزوم کی عورت فاطمہ ہے ، اگر میری بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ کر سزادیتا (اور قانون جاری کردیتا) ۔
٭٭٭
final