غیر متزلزل صبر کے ذریعے آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے، دولت کو اپنی ذات پر حاوی نہ ہونے دیجئے،دولت کو خدا سمجھنے لگیں تو تباہ و برباد کر دیتی ہے
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:210
غیر متزلزل صبر کے ذریعے آمدنی میں تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے:
بن ڈبلیو کی عمر اس وقت 80 برس ہے اور میرے حلقہ احباب میں سے وہ انتہائی دلچسپ شخصیت کا مالک ہے۔ بن ڈبلیو کی ایک خوبصورت بیوی ہے، کئی بچے ہیں، کتنے ہی پوتے ہیں، اور پھر بے شمار پڑپوتے بھی ہیں۔ وہ غیر معمولی طور پر دولت مند ہے۔ حال ہی میں اس نے مجھے بتایا، ”مجھے واقعی معلوم نہیں کہ میرے پاس کتنی دولت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میری دولت 300 ملین ڈالر سے کچھ زیادہ ہی ہے۔“
میں مختلف ذمہ داریوں کے سلسلے میں بن کے ساتھ 20 سال سے زائد عرصے تک کام کر چکا ہوں۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ کام جو میں نے اس کے ساتھ مل کرکیا، اس کی آپ بیتی کی تیاری تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ عوام اس کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں۔ وہ صرف اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ زندگی میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور ایک لطف آمیز اور شاندار زندگی گزارنے کے لیے کون کون سے بنیادی رہنما نکات اور اقدامات اپنائے اور آزمائے جاسکتے ہیں۔
اس کام کے ضمن میں، میں نے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی کیونکر میں بن کی زندگی کا گہرا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا ایک متوسط خاندان کا فرد، جس نے کالج کی تعلیم بھی برائے نام حاصل کی تھی، کیونکر تیل کے کنوؤں، رہائشی منصوبوں، مراکز خریداری، قطعات زمین، ہیرے جواہرات، سونے،تمسکات اور آلات زر کا مالک بن گیا۔
میں یہ بھی جاننے کا خواہشمند تھا کہ اس قدر دولت مند شخص نے کیونکر اپنی زندگی ایک معمولی گھر میں گزاری، 6 سال پرانی کار میں سفر کرتا رہا، اور ایک معمولی دکان سے اپنے ملبوسات خریدتا رہا۔ ایک شام کو جب ہم اس کی آپ بیتی کے متعلق گفتگو کر رہے تھے، اس نے اپنی داستان کا آغاز کر دیا اور مجھ سے کہنے لگا ”ڈیوڈ، آج میں تمہیں دولت کمانے کے ضمن میں اپنی سوچ اور انداز فکر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ تم اس کا ذکر میری کتاب، اس آپ بیتی میں کردو تاکہ میرے عظیم پوتے اور پڑپوتے میری باتیں سمجھ سکیں۔“
میں نے اس سے وعدہ کر لیا اور پھر بن شروع ہوگیا۔
”دولت کمانے کے ضمن میں میں نے ہمیشہ 4 اصولوں پر عمل کیا۔ پہلا اصول یہ ہے کہ دولت کمانے کی خواہش کو اپنی ذات پر حاوی نہ ہونے دیجئے۔ میں نے اپنے آباؤ اجداد سے سن رکھا ہے کہ اگر لوگ دولت کو اپنا خدا سمجھنے لگیں تو دولت انہیں تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ”میں نے ہمیشہ اپنی دولت کا کم از کم دس فیصد حصہ چرچ اور دیگر نیک مقاصد کے لیے صرف کیا ہے اور میرے فوت ہو جانے کے بعد میری زیادہ تر دولت فلاحی اور نیک مقاصد کے لیے وقف کر دی جائے گی۔“
بن نے اپنی داستان جاری رکھی ”دولت خرچ کرنے سے زیادہ دولت کمانے کے ذریعے مجھے زیادہ سے زیادہ لطف اور خوشی حاصل ہوتی ہے، بعض لوگ احمقوں کی مانند گھوڑوں کی ریس یا جوئے کے ذریعے اپنی مصروفیت کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں لیکن دولت کمانا ہی میرے لیے ایک کھیل ہے۔ میں اپنی قدر و قیمت کا تعین اپنے پاس موجود دولت کے ذریعے کرتا ہوں“۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”لیکن کیا تمہاری یہ سوچ اور انداز فکر، قدرے تنگ نظری اور خود غرضی پر مبنی نہیں ہے؟“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔