کتابیں ہیں چمن اپنا

کتابیں ہیں چمن اپنا
کتابیں ہیں چمن اپنا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


زندگی کی یکسانیت سے نکلنا ہو تو انسان کتابوں کی دنیا میں چلا جائے۔ یہ ایک ایسی دنیا کہ جہاں متنوع گوشے سامنے آتے ہیں اور دوسروں کے تجربات سے خط اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ دوستوں کی طرف سے بھیجی گئی بہت سی کتابیں میرے سامنے موجود ہیں تاہم آج میں تین کتابوں کا تذکرہ کروں گا  ان میں شاکر حسین شاکر کی ”علی منزل“، اکرم کنجاہی کی دو کتابیں ”افہام و تفہیم“ اور ”دبستان فلم کے نعت نگار“شامل ہیں۔ تینوں کتابیں اپنے موضوعات اور متن کے لحاظ سے بڑی دقیع اور قابل مطالبہ ہیں۔(شاکر حسین شاکر ملتان میں مقیم ہیں) ملتان میں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ تاہم ”علی منزل“ اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب  ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے آبائی گھر کے حوالے سے یادوں کا ایک ایسا دبستان سجایا ہے، جس کی محویت میں قاری خود کو بھول جاتا ہے۔علی منزل ایک گھر ہی نہیں بلکہ ادب و ثقافت کا ایک استعارہ بھی ہے چونکہ مصنف کے خاندان میں ادبی وراثت بھی موجود ہے،اس لئے اس کتاب میں ملتان کے ادب کی ایک خوبصورت تاریخ بھی ملتی ہے۔شاکر حسین شاکر نے یادوں کے لامتناہی سلسلے کو بڑی خوبصورتی سے کوزے میں بند کر دیا ہے۔ابواب کی تقسیم اس قدر خلاقی کے ساتھ کی ہے کہ واقعات ایک فلم کی صورت اور ترتیب کے ساتھ قاری کے سامنے چلے آتے ہیں اسی انداز سے یادوں بھری کتابیں اور بھی لکھی گئی ہیں تاہم ”علی منزل“ اس حوالے سے ایک اچھوتی کتاب ہے کہ اس میں صرف اس گھر کی کہانی ہی بیان نہیں کی گئی بلکہ اُس گھر کی وجہ سے ملتان کی ادبی و ثقافتی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو بھی قلمند کیا گیا ہے۔مجھے تو یہ کتاب پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے میں کوئی ناول پڑھ رہا ہوں،جس کے واقعات ہی نہیں بلکہ کردار بھی جیتے جاگتے ہیں۔ شاکر حسین شاکر نے اس کتاب کا پلاٹ بڑی مہارت سے ترتیب دیا ہے۔ بکھرے ہوئے واقعات اور موضوعات کے باوجود قاری ایک لمحے کے لئے علی منزل کے سحر سے نہیں نکلنے پاتا۔اس میں ملک کے معروف شاعر اور نثر نگار حسین سحر کا بھی ذکر ہے،جو شاکر حسین شاکر کے حقیقی چچا تھے اور اسی علی منزل کے مکین بھی تھے۔ اُن کی وجہ سے یہ گھر ادب کا گہوارہ تھا1981ء میں اس گھر سے شروع ہونے والی کہانی مکینوں کے درمیان محبت، ایثار اور اپنائیت کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھ کر مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت پر یقین آ جاتا ہے۔ شاکر حسین شاکر کی نثر نے اسی کتاب کا مزہ دو آتشتہ کر دیا ہے۔وہ قاری کو انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور ایک گھر کے روزن سے ملتان کی زندگی کے مناظر ایسے دکھاتے ہیں جیسے غیر ملکی سیاحوں کو ایک مشاق گائیڈ دکھاتا ہے۔اس کتاب کو سنگ ِ میل لاہور نے بڑی خوبصورتی سے شائع کیا ہے جس نے اس کی اہمیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ممتاز شاعر ادیب اور نقاد اکرم کنجاہی کا بنیادی طور پر تعلق توگجرات سے ہے تاہم وہ ایک عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں۔انہوں نے نظم و نثر کے میدان میں بہت گراں قدر کام کیا ہے۔ حال ہی میں اُن کی دو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ”دبستان فلم کے نعت نگار“ اُن کی ایک منفرد کتاب ہے جس میں انہوں نے فلم کے لئے نعتیں لکھنے والے شاعروں کی شخصیت و فن پر ایک جامع تحقیقی کام کیا ہے۔ پون صدی پر مبنی نعت نگاری کی یہ تاریخ اپنے اندر جہاں قاری کے لئے معلومات کا خزانہ رکھتی ہے وہاں دبستان فلم کے نعت نگاروں کی زندگی اور فن پر ایک جامع تحقیقی و تنقیدی مطالعے کے اسباب بھی فراہم کرتی ہے۔ اکرم کنجاہی نے اس میں نعت گوئی کے فن پر بھی جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں۔”اس کتاب کے عظیم موضوع اور تقدس کے پیش ِ نظر یہاں دبستان فلم کے صرف ایسے شعراء کی فلمی مصروفیات کے ساتھ امن کے نعتیہ کلام کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ جنہوں نے امام الانبیاءؐ کے حضور نہایت عجز وانکسار اور جذب و کیف کے ساتھ نذرانہ عقیدت پیش کرنے میں اپنے فکر و فن سے بھرپور کام لیا ہے“۔اس کتاب میں 25 ایسے نامور شعراء کے نعتیہ کلام کا مطالعہ شامل ہے جنہوں نے کسی نہ کسی انداز میں فلم کے لئے بھی اپنے اس فن کا اظہار کیا۔بعض مطالعے بہت دلچسپ ہیں، مثلاً انہوں نے حبیب جالب کا تذکرہ ترقی پسند نعت کے حوالے سے کیا ہے جو ایک اچھوتا موضوع ہے۔ہر شاعر کے بارے میں انہوں نے ایک خاص انداز سے لکھا ہے اور اُس کی فنی خوبیوں کا بڑی عرق ریزی سے جائزہ لیا ہے، ویسے تو ان25شاعروں کے بغیر اردو کی تاریخ بھی مکمل نہیں ہوتی تاہم نعت نگاری کے حوالے سے اُن کا تذکرہ کر کے اکرم کنجاہی نے ایک نئے مطالعے اور تحقیق کی بنیاد رکھ دی ہے۔

”افہام و تفہیم“ اکرم کنجاہی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی کتاب ہے اکرم کنجاہی ایک کہنہ مشق نقاد اور محقق ہیں اُن کی درجن بھر سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اُن کے تمام زاویوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ 303 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے اندر نقد و نظر کا گراں قدر مواد ر کھتی ہے جس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید کا حصہ بھی موجود ہے۔کتاب کو انہوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ حسن افکار، تنقیدی بصیرت، فکشن نگاری، شگفتہ نثر، شعری شعور و لاشعور اور اختصار ہے،ان ابواب ہی سے کتاب کی بوقلمونی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ تحقیق کے شعبے میں  انہوں نے ایسے موضوعات لئے ہیں جن پر اگرچہ پہلے بھی کام ہو چکا ہے تاہم اُن کے حوالے سے ایک تشنگی ضرور موجود ہے۔انجمن ترقی پسند مصنفین، پس منظر و پیش منظر کے عنوان سے اسی کتاب کا اولین موضوع پر ایک گراں قدر تحقیق ہے۔انہوں نے اس انجمن کے قیام کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے ایسے متعدد نکات کی نشاندہی کی ہے جو پہلے نظر انداز کئے جاتے رہے۔ایک اور موضوع جس پر جامعات میں تحقیق ہونی چاہئے وہ ادب پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اثرات ہیں۔اس موضوع پر کتاب میں ایک جامع مقالہ موجود ہے جس میں ایک موضوع کی مناسبت سے بنیادی نکات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک اور اہم موضوع”دانشور طبقہ اور کتاب کی بے توقیری“ ہے۔کتاب کی اہمیت کیوں کم ہو گئی یا اُسے خرید کر پڑھنے کے رجحان میں کمی کیوں آئی، مسئلے کا حل کیا ہے،ان سوالات کا رسی مضمون میں احاطہ کیا گیا ہے۔ فکشن نگاری کے باب میں ناول اور افسانے کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ شعری شعور والا شعور کے باب میں نو شاعروں کے کلام کا تنقیدی مطالعہ قاری کو دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے۔ شاعری پر تنقید آج کل یکسانیت کا شکار نظر آتی ہے، تاہم اکرم کنجاہی نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ شاعروں کے شعری اوصاف کو اُجاگر کیا ہے،اس باب میں نئے پرانے تمام اہم شاعر شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -