درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 57
ایک باروہ طویل مدت کے بعد اس طرح آئی۔اب کے وہ تنہا نہ تھی۔ پنجوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ اپنے ساتھ دو بچے بھی لائی ہے اور یہی بات علاقے کی بدقسمتی بن گئی۔اب تک بہت کم مویشی، جنگلی درندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے تھے لیکن اس شیرنی کی آمد کے ساتھ مویشیوں کی ہلاکت میں ناقابل بیان اضافہ ہو گیا۔اسے نہ صرف اپنا پیٹ بھرنا ہوتا بلکہ دو بچوں کی بھوک بھی مٹانا ہوتی۔ہر تیسرے دن ایک مویشی غائب ہو جاتا اور پھر اس کی لاش کا سراغ فضا میں منڈلانے والے گدھوں سے لگتا۔آئے دن کا یہ زباں ناقابل برداشت تھا، چنانچہ گاؤں والوں نے پاناپتی میں خبر پہنچا دی اور میرے ساتھی شکاری رنگا سے مدد طلب کی جو آٹھ میل دور پناگرام کے قصبے میں رہائش پذیر تھا۔ میں اس شکاری کے بارے میں پہلی کہانیوں میں بہت کچھ بیان کر چکا ہوں۔میں،وہ اور بائرا ان جنگلوں کے چپے چپے میں گھوم چکے تھے۔رنگا عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے ہانکا کرنے سے اپنا کیرئیر شروع کیا، پھر وہ گاڑی بان، شکاری، کاشت کار اور آخری دنوں میں تھوڑی سی زمین کا مالک بن گیا۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رنگا کو جب اطلاع ملی تو اس نے بڑی سنجیدگی سے اس کا نوٹ لیا۔اس کے پاس توڑے داربندوق تھی۔ یہ تھی تو پرانی مگر بڑی کارگر۔اس کی مدد سے وہ اب تک سینکڑوں جنگلی جانور ہلاک کر چکا تھا۔ پناگرام کے نواح میں کماد کے کھیتوں پر حملہ کرنے والے سورتو اس کی شکل دیکھ کر لرز جاتے۔رنگا کو یقین تھا کہ وہ اس پرانے ہتھیار سے شیرنی کو بھی ٹھکانے لگا دے گا۔
اس نے کہلوا بھیجا کہ شیرنی اب شکار کرے تو بچی کچی لاش احتیاط کے ساتھ درختوں کی شاخوں سے ڈھک دی جائے اور پھر اسے بلالیا جائے،وہ شیرنی سے دو دو ہاتھ کرلے گا۔ شیرنی کا اگلا شکار ایک بھینس تھی۔آدھی سے زیادہ لاش تو انہوں نے چٹ کرلی، باقی ماندہ لاش اگلے دن دیہاتیوں نے درخت کاٹ کر چھپا دی اور رنگا کو اطلاع کر دی۔وہ پیغام ملتے ہی پہنچ گیا مگر سارا منصوبہ ناکام رہا۔ آس پاس کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر بیٹھ کر وہ شیرنی کا انتظار کر سکتا۔ جو واحد درخت تھا اسے دیہاتوں نے کاٹ ڈالا تھا۔ شاخیں لاش پر ڈال دیں اور تنا وغیرہ اٹھا کر بستی میں لے گئے۔دوسرا درخت اتنی دور تھا کہ وہاں سے توڑے دار بندوق، درندوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتی تھی لیکن اور کوئی متبادل راستہ بھی نہ تھا۔ رنگا اس درخت پر چڑھ گیا اور ایک دو شاخے پر بیٹھ کر شیرنی اور اس کے بچوں کا انتظار کرنے لگا۔
رات تاریک تھی۔ خاصی رات گئے گوشت چبانے کی آواز ابھری۔ رنگا چوکس ہو گیا۔اس نے ٹارچ کا بٹن دبا دیا۔شاید ٹارچ کے سیل کمزور تھے۔رنگا کو اپنا ہدف صاف دکھائی نہ دیا لیکن وہ ایک ماہر شکاری تھا اور ماضی میں محض اندازے سے بھی اس کے کوئی فائر کارگر ثابت ہوئے تھے۔اس نے ٹریگر دبا دیا۔ ایک دھماکا ہوا۔ رنگا کے آس پاس دھواں پھیل گیا۔ساتھ ہی اسے شیرنی کی کراہ سنائی دی۔اس کا مطلب تھا،فائر صحیح نشانے پر بیٹھا ہے۔اس نے دوبارہ ٹارچ کی روشنی ڈالی تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہاں شیرنی تھی نہ اس کے دو بچے۔
دن کے وقت پجاریوں نے لاش کے اردگرد جنگل کا معائنہ کیا تو وہ خون کے نشانات کے پیچھے چلتے چلتے چنارتک پہنچ گئے۔وہاں سے شیرنی نے دریا عبور کیا اور اگلے کنارے پر خون کے نشانات پھر دکھائی دینے لگے۔یوں لگتا تھا، شیرنی کے دائیں پہلو میں گولی لگی ہے لیکن اس کی ٹانگیں محفوظ رہی تھیں کیونکہ قدموں کے نشانات سے لنگڑا پن ظاہر نہ ہوتا تھا۔ دریا کے پارشیرنی پہاڑی میں غائب ہو گئی تھی۔ یہاں خون کے نشانات بھی دکھائی نہ دیے۔رنگا نے یہ سوچ کر اطمینان کا سانس لیا کہ شیرنی وقتی طور پر راستے سے ہٹ گئی۔اب یا تو وہ زخم کے ہاتھوں مر جائے گی یا شکار نہ کر سکتے کی بنا پر بھوک کا شکار ہو کر دما توڑ دے گی لیکن اس کے دماغ سے شیرنی کے دونوں بچے نکل گئے جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر علاقے کے لیے نئی آفت بن سکتے تھے۔
ٹھیک دوماہ بعد گاڑیوں کا ایک قافلہ انابدھالیہ کے گڑھے کے قریب سے گزرا۔سب سے اگلی گاڑی کے نیچے ایک لالٹین لٹکی ہوئی تھی اور باقی گاڑیاں اس روشنی کے پیچھے چلی جارہی تھیں۔انہیں شیرنی اور اس کے بچوں کا تو تصور تک نہ تا۔انابدھالیہ سے آگے بس اسی جنگلی ہاتھی کا خطرہ ذہن میں تھا جس کا تذکرہ میں اوپر کر آیا ہوں مگر اس خیال سے کچھ زیادہ پریشان نہ تھے کہ وہ دس بارہ ساتھی ہیں۔ہاتھی اگر نمودار ہو بھی گیا تو ٹین پیٹ پیٹ کر اسے بھگا دیں گے۔
عام طورپر گاڑی بان، گاڑی کے ا گلے حصے میں سوار ہوتے ہیں مگر ایک گاڑی بان ہمیشہ گاڑی کے پیچھے پیدل چلتا رہتا۔وہ تو اپنے زعم میں احتیاط سے کام لیتا کہ اگر جنگلی ہاتھی نے حملہ کیاتوہ وہ گاڑی کے پیچھے چھپ جائے گا مگر ایک روز یہی احتیاط اس کی جان لے بیٹھی۔ایک کوبرا، بیلوں کے قدموں میں کچلا گیا۔جب گاڑی گزری اور گاڑی بان وہاں پہنچا تو سانپ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا، اس نے گاڑی بان کو ڈس لیا اور وہ دو گھنٹے کے اندر مر گیا لیکن گاڑیوں کے اس قافلے کی گھات میں نہ تو کوئی کو برا تھا اور نہ خونخوار ہاتھی، بلکہ ایک بھوکی شیرنی اور اس کے دو بلبلاتے ہوئے بچے شکار کے منتظر بیٹھے تھے۔انہوں نے پورے قافلے کو گزرنے دیا اور آخری گاڑی پر حملہ کر دیا۔ بیل ہراساں ہو کر بگٹٹ دوڑنے لگے۔گاڑی بان کمبل میں لپٹا نیند کے مزے لے رہا تھا۔ اس افراتفری سے اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ہوا میں معلق پایا۔ جلد ہی گاڑی کا توازن بگڑ گیا اور گاڑی نالے میں لڑھک گئی۔ ایک بیل جوئے سے آزاد ہو کر بھاگ نکلا مگر دوسرے بیل کو شیرنی اور اس کے بچوں نے مہلت ہی نہ دی۔وہ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی گردن مروڑ دی۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)