برائی میں بھلائی کی صورت۔۔۔

اس دنیا میں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں سے کچھ طریقے ایسے ہیں جن میں بظاہر دوسروں کے ساتھ برائی کی جا رہی ہوتی ہے ، مگر درحقیقت یہ ان کے ساتھ بھلائی ہی ہوتی ہے ۔ مثلاً اکثر اداروں میں ملازمین کی تنخواہ کا ایک بہت تھوڑ ا سا حصہ کاٹ لیا جاتا ہے ۔ یہ تھوڑ ی سی رقم ماہ بہ ماہ جمع ہوکر بڑ ھتی رہتی ہے ۔ ملازمت ختم ہونے کے بعد ادارہ اس رقم میں اضافہ کر کے ایک معقول رقم ملازمین کو دے دیتا ہے ۔ اس طرح ہر ماہ کٹی ہوئی یہ رقم ملازمین کو زیادہ رقم کی شکل میں اُس وقت ملتی ہے جب انھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن اگر وہ تھوڑ ی سی رقم ہر ماہ ملتی رہتی تو غیر محسوس طریقے پر غیر ضروری خرچوں میں استعمال ہوجاتی۔
برائی میں بھلائی کی ایک اور صورت وہ ہے جس میں زیادہ بڑ ی تکلیف سے بچانے کے لیے کسی کو کچھ تکلیف میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ جیسے چھوٹے بچوں کی ویکسی نیشن میں انھیں سوئی چبھنے اور بخار اور درد وغیرہ کی تکلیف میں اس لیے ڈالا جاتا ہے کہ وہ کسی بڑ ی اور جان لیوا بیماری سے محفوظ رہیں ۔
برائی کی شکل میں بھلائی کی ایک شکل وہ ہے جس میں کسی کو اس کی ضرورت اور خواہش کی چیز نہیں دی جاتی یا اس پر کچھ مشقت ڈال دی جاتی ہے ۔ مثلاً بیماریوں سے بچانے کے لیے کولڈرنک اور ٹافی وغیرہ بچوں کو نہیں دی جاتیں ۔ یا پھر والدین بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے صبح کا آرام چھڑ ا کر انھیں روتا ہوا ا سکول بھیج دیتے ہیں ۔ ان تمام شکلوں میں بظاہر ہونے والی برائی اصل میں برائی نہیں ہوتی بلکہ عین مہربانی ہوتی ہے ۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی درجے کی شفیق اور مہربان ہستی ہیں ۔ وہ بندوں کے ساتھ ہمیشہ عطا اور کرم کا معاملہ کرتے ہیں ۔ انسان کو اس دنیا میں جو ملا ہے وہ اسے رب کی عطا ہی سے ملا ہے ۔ اس کی زندگی، جسم، اعضا و قویٰ، کھانا پینا، رشتے ناتے ، زمین، ہوا، سورج، غرض آسمان و زمین اور اندر و باہر کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے ۔ مگر ان کی مہربانی نہ صرف عطا کے روپ میں اپنا ظہور کرتی ہے بلکہ محرومی کے روپ میں بھی جو کچھ سامنے آتا ہے دراصل وہ بھی ان کی عنایت ہی ہوتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح مندرجہ بالا مثالوں میں ہم نے دیکھا تھا۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال قرآن کریم کی سورۂ کہف میں بیان ہونے والا حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا وہ واقعہ ہے جس میں حضرت خضر پہلے دو یتیموں کی کشتی میں چھید کرڈالتے ہیں اور اس کے بعد ایک معصوم بچے کو قتل کرڈالتے ہیں ۔ بعد ازاں وہ حضرت موسیٰ پر یہ واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اذن الٰہی سے کیے تھے اور ان بظاہر منفی نوعیت کے واقعات میں بھی اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی ہی کا معاملہ کیا تھا۔ کشتی میں سوراخ کی بنا پر وہ ایک غاصب بادشاہ کے شر سے بچ گئی اور یتیم بچوں کے پاس رہی جنھوں نے مرمت کے بعد اسے قابل استعمال بنالیا۔ جبکہ مقتول بچہ ایک شریر نوجوان کا روپ دھار رہا تھا جو اس کے اپنے والدین کے لیے اذیت و مصیبت کا باعث ہوتا۔ چنانچہ اس کے بعد والدین کو ایک نیک و صالح بچہ عطا کر دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے ساتھ ہمیشہ کرم کا معاملہ کرتے ہیں ۔ شر ان سے نہیں مخلوقات سے سرزد ہوتا ہے جبکہ وہ اس سے پناہ دیتے ہیں (الفلق)۔ مگر انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسی کریم ہستی کی قدر کرنے کے بجائے مصیبت آنے پر واویلا شروع کر دیتے ہیں ۔ خدا سے شکوہ و شکایت، اس کی نافرمانی حتیٰ کہ اس کا کفر و انکار بھی کر دیا جاتا ہے ۔ مگر کتنی اعلیٰ ہے وہ کریم و شریف ہستی جو انسانوں کی تمام تر احسان فراموشیوں کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیے جاتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پروردگارکے شرف کی انتہا بھی ہے اور شرافت کی بھی۔ مگر انسان کبھی اس کی قدر نہیں کرتا جو عطا میں بھی مہربانی کرتا ہے اور محرومی میں بھی احسان کرتا ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔