قصور میں بداخلاقی کے مقدمات میں غیرسنجیدگی دکھائی گئی،پہلے کیس میں سخت ایکشن لیتے تو زنیب کا واقعہ پیش نہ آتا:چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
لاہور(نامہ نگار خصوصی)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے زینب قتل کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ پنجاب حکومت اور پولیس تسلیم کر لے کہ قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی بداخلاقی کے مقدمات میں غیرسنجیدگی اور غفلت دکھائی، اگر جون 2015ءمیں پہلے بچے کے ساتھ بداخلاقی کے ملزم کے خلاف سخت ایکشن لیا گیاہوتا تو آج زنیب کے ساتھ درندگی کا واقعہ پیش نہ آتا، عدالت نے پولیس حکام کو زینب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے 24گھنٹے کی مزید مہلت دیتے ہوئے آئندہ تاریخ سماعت پر 17جنوری کو آئی جی پولیس، جے آئی ٹی کے سربراہ، سیکرٹری صحت اور سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کو طلب کر لیا ہے۔
چیف جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق اور صفدر شاہین پیرزادہ کی بچوں کے تحفظ کے لئے مفاد عامہ کی درخواستوں پر قصور میں بداخلاقی کا نشانہ بننے والی اور ایک چھوٹی بچی کائنات بتول کے علاج ومعالجے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا حکم بھی دیا ،عدالت نے قصور میں بچوں سے بداخلاقی کے تمام مقدمات کا ٹرائل فوری طور پر چائلڈ کورٹ میں منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ چائلڈ کورٹ روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کو سنے گی اور کسی دوسرے مقدمے کی سماعت نہیں کرے گی ۔پولیس کی طرف سے پنجاب میں 2017ءکے دوران بچوں کے ساتھ بداخلاقی اور قتل کے واقعات کی رپورٹ بھی پیش کردی گئی ہے ۔عدالتی حکم کے باوجود آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز عدالت میں پیش نہ ہوئے بلکہ جونیئر افسران عدالت میں ریکارڈ لے کر پیش ہوئے جس پر درخواست گزاروں نے اعتراض کیا کہ اسی حرکت سے اندازہ لگا لیں کہ پولیس کتنی سنجیدگی دکھا رہی ہے۔
عدالت کے روبرو زینب قتل کیس کی جے آئی ٹی کے سابق سربراہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش نے عدالت کو بتایا کہ قصور میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ بداخلاقی کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں، 2016ءمیں قصور جنسی سکینڈل کی جے آئی ٹی کی سربراہی انہوں نے خود کی تھی، ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ قصور میں بچے کے ساتھ جنسی بداخلاقی کا پہلا واقعہ جون 2015ءمیں ہوا تھا، اس انکشاف پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پہلا واقعہ اتنا پرانا ہے تو پھر پنجاب حکومت اور پولیس نے سنجیدہ اقدامات کیوں نہیں کئے، اگر پہلے واقعہ کے ملزم کیخلاف سخت سیکشن لیا جاتا تو آج زینب کے ساتھ درندگی کا واقعہ پیش نہ آتا، پنجاب حکومت اور پولیس اپنی غیرسنجیدگی اور غفلت کو تسلیم کر لے، ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بتایا کہ زینب کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے، یہ ڈی این اے ٹیسٹ پہلے سات ڈی این اے ٹیسٹوں سے ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ہی سیریل کلر ہے جو بچوں کو اغواءکے بعد بداخلاقی کا نشانہ بنا کر قتل کرتا ہے، اب تک 67مشتبہ افراد سے تفتیش کی جا چکی ہے لیکن وہ اصل ملزم نہیں ہیں، ملزم کی گرفتاری کے لئے تمام عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش نے بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جس پر مسٹر جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہ کہیں اور صرف ڈی این اے ٹیسٹ پر انحصار نہ کریں، ہم جانتے ہیں کہ پولیس کے پاس ملزموں کو گرفتار کرنے کے لئے اور بھی بہت سے راستے ہوتے ہیں، پولیس افسران اور سرکاری وکلا ءکے بیان ریکارڈ کرنے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے قصور میں بچوں کے مقدمات کے فوری ٹرائل کے لئے خصوصی چائلڈ کورٹ بنانے کا حکم جاری کر دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ قصور میں بچوں سے بداخلاقی کے تمام مقدمات کا ٹرائل فوری طور پر چائلڈ کورٹ میں منتقل کیا جائے، چائلڈ کورٹ روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کو سنے گی اور کسی دوسرے مقدمے کی سماعت نہیں ہوگی، عدالت نے ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی کو حکم دیا کہ چائلڈ کورٹ میں زیر التواءمقدمات کی فرانزک رپورٹس میں کوئی تاخیر نہیں آنی چاہیے، پولیس اور پراسیکیوشن بھی چائلڈ کورٹ کی معاونت کرے، عدالت کو بتایا گیا کہ قصور میں اسی سیریل کلر نے ایک 6 سالہ بچی کائنات کو بھی بداخلاقی کا نشانہ بنایا اور اسے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ زندہ بچ گئی اور اب چلڈرن ہسپتال میں زیر علاج ہے، کائنات کی حالت جسمانی طور پر خطرے سے باہر ہے لیکن وہ گم سم ہے اور ابھی بول نہیں سکتی جس پر عدالت نے سیکرٹری صحت پنجاب کو حکم دیا کہ کائنات کے علاج معالجے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں، ہو سکتا ہے کہ کائنات ملزم کی شناخت کر لے، عدالت نے آئی جی پولیس کو زینب قتل کیس کے ملزم کی گرفتاری کیلئے مزید 24گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے 17جنوری کو ریکارڈ اور پیش رفت رپورٹ سمیت پیش ہونے کا حکم دے دیا، عدالت نے زینب قتل کیس کی جی آئی ٹی کے سربراہ اور بچوں کے نصاب سے متعلق معاونت کے لئے سیکرٹری سکولز پنجاب کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت کے لئے17جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔