تعمیراتی شعبے کی بحالی کا روشن امکان
الحمد للہ! فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان میں تعمیراتی شعبے کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ارشد محمود لنگڑیال نے جائیداد کی خریدوفروخت پر ودہولڈنگ ٹیکسوں کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان میں گھروں کے خریداروں کو ٹیکس ریلیف ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے جس سے ملک میں ہاؤسنگ سکیموں کے فروغ میں مدد ملے گی۔ اس سے پاکستان میں تعمیراتی سرگرمیوں کو بھی بڑھاوا ملے گا جو ٹیکسوں کی بھرمار اور جائیداد کی خریدوفروخت پر بے جا پابندیوں کی وجہ سے بحران کی شکار ہیں۔آباد تسلسل کے ساتھ ٹیکس رجیم میں اصلاحات کے لئے حکومت کو تجاویز دیتی رہی ہے تاکہ پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ترقی کے معدوم ہوتے امکانات پر قابو پایا جا سکے۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے زمین کی خریدوفروخت پر عائد کی جانے والی 5فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ہٹانے پر غور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جو انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ ایسا کرنے سے زمین کے خریداروں پر پڑنے والا بے جا بوجھ ختم ہوگا اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا۔
پاکستان میں رئیل اسٹیٹ شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ گھروں کی تعمیر کا پوٹینشل موجود ہے۔ اسی طرح یہ شعبہ سالانہ 100بلین ڈالر بیرونی سرمایہ کاری لانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اس شعبے سے 72ایسی انڈسٹریاں وابستہ ہیں جن کی پیداوار براہ راست تعمیراتی شعبے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان میں سٹیل، سیمنٹ، ٹائلزاور فرنیچر سمیت بہت سی ایسی صنعتیں شامل ہیں جن کی افزائش کا دارومدار اس سیکٹر پر ہے۔یہ تمام صنعتیں اس وقت 50فیصد پروڈکشن پر چل رہی ہیں جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ تعمیراتی شعبے میں سست رفتاری کی وجہ سے ان صنعتوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی ہے اور لاکھوں مزدوروں کو بیروزگاری کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 40فیصد سے گھٹ کر 4.9فیصد ہو گئی ہے مگر اس کا فائدہ عام آدمی کو اس لئے نہیں ہو رہا کہ بے جا ٹیکسوں کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں جس سے صنعتوں کی بندش ہے اور بیروزگاری کی وجہ سے مزدور کا چولھا ٹھنڈا پڑا ہوا ہے۔
پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا سب سے بڑا ایشو یہ ہے کہ حکومت نے ریونیو حاصل کرنے کیلئے اس پر بے جا ٹیکسوں کی بھرمار کردی ہے۔ ان میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہے جو ہمیشہ ان اشیاء پر لگائی جاتی ہے جنھیں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شامل کرنا مقصود ہو یا پھر ایسی اشیاء پر لگائی جاتی ہے جو تعیشات میں شمار ہوتی ہیں۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہاؤسنگ سیکٹر پر اطلاق ناقابل فہم عمل تھا اور اچھی بات یہ ہے کہ ایف بی آر کو اس کا احساس ہوگیا ہے اور اس نے اس کو ہٹانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سیکٹر کے فروغ میں دوسری بڑی رکاوٹ پراپرٹی کی خریداری پر لگائے جانے والے بے جا ٹیکس ہیں جو دنیا میں کہیں بھی نہیں، اس ایک عمل سے پاکستان سے بہت سے سرمایہ اڑ کر بیرون ملک جانے لگا ہے۔
ایف پی سی سی آئی اور آباد کے عہدیداروں نے بروقت حکومت اور ایس آئی ایف سی سے رابطہ کرکے انہیں زمینی صورت حال سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں ایف پی سی سی آئی اور آباد کے ماہرین نے اعدادوشمار کی صحیح ورکنگ کرکے حکومت، ایس آئی ایف سی اور ایف بی آر کے پالیسی سازوں کو باور کروایا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکسوں کی بھرمار نے ملک میں معاشی پہیہ جام کردیا ہے جسے دوبارہ سے حرکت میں لانے کے لئے پراپرٹی کی خریداری پر عائد ہر قسم کاٹیکس ختم کردینا چاہئے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کیا جائے کیونکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور تمباکو کی انڈسٹری میں زمین آسمان کا فرق ہے جہاں ایکسائز ڈیوٹی کا اطلاق اس لئے کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی صحت کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ وقت آگیا ہے کہ حکومت Mortgage financingکا ایک ماڈل ڈیزائن کرے اور بینکوں کے لئے لازمی قرار دے کہ اس کو کامیاب بنائیں۔ یہ ماڈل پانچ سال کے لئے فکسڈ پراڈکٹ پر مشتمل ہو کیونکہ پاکستان میں بینکوں کی شرح سود میں بہت اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔
درج بالا مشکلات پر غوروفکر کے لئے خوش آئند بات یہ ہوئی کہ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جس میں ایف پی سی سی آئی، آباد اور حکومت کے پالیسی سازوں کو شامل کیا گیا اور انہوں نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو درپیش ہر مسئلے کا بھرپور جائزہ لیا اور اپنی سفارشات مرتب کیں جن پر وفاقی کابینہ میں غوروخوض جاری ہے۔ یہاں میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب، وفاقی وزیر ہاؤسنگ ریاض حسین پیرزادہ، چیئرمین ایف بی آرارشد محمود لنگڑیال اورایس آئی ایف سی کی ہائی کمان کی کوششوں کو سراہوں گا جنھوں نے ایف پی سی سی آئی اور آباد کے مطالبات پرٹاسک فورس تشکیل دی اور ان کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر دن رات محنت سے ایک ریلیف پیکج ترتیب دیا ہے جس پر اگر عمل ہوگیا تو یقینی طور پر پاکستان کی معیشت بہتری کے آثار نمایاں ہو جائیں گے۔ خاص طور پر پاکستان میں سستے گھروں کی تعمیر کو فروغ دینے کے لئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا وژن لائق صد تحسین ہے اور اس ایک قدم سے پاکستانی معیشت کی بحالی کا سفر تیز تر ہو جائے گا۔
ریئل اسٹیٹ انڈسٹری سب سے زیادہ منافع بخش شعبوں میں سے ایک ہے۔ ملک بھر میں زراعت کے بعد یہ دوسرا بڑاز روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی میں بھی نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔ ملک کے اس منافع بخش سیکٹر کے متعدد بڑے چیلنجز پر توجہ نہ دی گئی تو اس سیکٹر کے سرمایہ کاروں سمیت ملک کی جی ڈی پی کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان میں ریئل اسٹیٹ یعنی زمین کی خریدوفروخت میں باقی شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، عوام سسٹم سے نالاں ہی کیوں نہ ہوں جائیداد کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لئے ملکی معیشت کو بڑھاوا دینے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اس شعبے پر عائد کئے جانے والے ٹیکسوں کی بھرمار کو فی الفور کم کرے اور نہ صرف ملکی بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری کی ملک میں آمد کی راہ ہموار کرے اور مزدور طبقے کے لئے روزگار پیدا کرے۔