اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 163
شیخ نجیب الدین علی بزغش ؒ (سہروردی) فرماتے ہیں کہ ایک عورت قریہ گلپائیگان سے شیراز میں آئی۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتی تھی۔ بہت باخبر خاتون (امراة فارسیہ رحمہااللہ تعالیٰ) تھیں۔ ایک بار چند دن تک ہمارے گھر میں مقیم رہیں۔ اس زمانے میں میرا ہاتھ تنگ تھا اور اس پر یہ حال روشن تھا۔
گھر میں چند برتن تھے۔ جب کبھی اللہ گیہوں، جو وغیرہ بھیج دیتا تھا تو وہ غلہ ان برتنوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ آج کل وہ برتن خالی تھے۔ وہ صرف ڈھکے ہوئے تھے۔ تاکہ گردوغبار سے پاک رہیں۔
اس خاتون نے سمجھا کہ شاید ان برتنوں میں غلہ ہے۔ کہا کہ آج کل جب کہ ہاتھ تنگ ہے، ان برتنوں سے غلہ کیوں خرچ نہیں کرتے۔“
میں نے کہا ”وہ تو خالی ہیں۔“
وہ خاتون اُٹھیں اور اُن کے سرپوش اُٹھا کر الگ رکھ دئیے اور کہا ”یہ اس لیے اب تک خالی ہیں کہ ان کا منہ بند تھ۔ا جب ان کا سر کھلا ہوگا تو اس منہ کی طرح ہوگا جو کھلا ہو اور بھوکا ہو اور پھر اس کو خداوند تعالیٰ غذا پہنچاتا ہے چونکہ ان برتنوں کی غذا غلہ ہے۔ جب ان کے پیٹ خالی ہوں گے تو غلہ اور اناج سے بھرجائیں گے۔“
جب اس خاتون نے یہ تصرف کیا تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس قدر گیہوں بھیجے کہ وہ تمام برتن بھرگئے۔ بے شک خاتون اولیاءاللہؒ میں سے تھیں۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 162 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میرے سامنے لوگوں نے ایک عابدہ کنیز (جاریہ مجہولہؒ)کی تعریف کی۔ میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک ویران دیر میں پڑی رہتی ہے۔ میں اس سے ملنے وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بہت لاغر و کمزور کنیز ہے جس کو رات دن کی بے خوابی نے ایسا کردیا ہے۔
میں نے اس سے کہا ”اے کنیز! تم اس دیر میں رہتی ہو۔“
اس نے کہا ”سر اُٹھاﺅ۔ کیا خداوند تعالیٰ کے سوا دونوں جہاں میں تم کو کچھ اور بھی نظر آرہاہے ۔“
میں نے کہا ”نہیں۔“
پھر میں نے اس سے پوچھا ”اس طرح تنہا رہنے سے تم کو وحشت نہیں ہوتی۔“
اس نے کہا ”جاﺅ میرے پاس سے دور ہوجاﺅ۔ تم کو نہیںمعلوم کہ اللہ تعالیٰ نےمیرے دل کو ا پنی حکمت کے لطیفوں سے اور اپنی محبت سے اس قدر معمور کردیا ہے اور اپنے دیدار کا اس قدر شوق مجھ کو دیا ہے کہ اپنے دل میں کو ئی جگہ میں اس کے غیر کے لئے نہیں پاتی۔ (پھر تنہائی کیسی؟)
میں نے کہا ”تم مجھے حکیمہ نظر آتی ہو، تم مجھے اس تنگی سے نکال دو اور سیدھا راستہ دکھا دو۔“
اس نے کہا اے جوانمرد! تقویٰ کو اپنا زاد راہ، زہد کو اپنا طریقہ اور پرہیز گاری کو اپنی سواری بنالے اور خدا سے ڈرنے والوں کے راستہ پر چل، تاکہ تو ایسے دروازے پر پہنچ جائے کہ نہ وہاں کوئی حجاب ہوگا، نہ دربان۔ وہ اپنے عاملوں ےس مدد فرمادے گا کہ کسی کام میں تیری نافرمانی نہ کریں۔
٭٭٭
ایک دفعہ شیخ ابراہیم الخواصؒ مسجد میں مصلے پر تشریف فرماتھے۔ ایک شخص نے مٹھی بھر درہم آپ کے مصلے پر رکھ دئیے۔ آپ فوراً مصلے سے اٹھے اور اسے چھاڑ دیا۔ اور ان درہموں کو مٹی میں ملادیا اورفرمایا ”یہ مصلےٰ اس (مال) سے پہلے میرے پاس آیا ہے۔“
وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے اُن جیسا معزز اور غیور کسی کو نہیں پایا کہ انہوں نے مال کو اس طرح ٹھکرادیا اور اس وقت میں نے خود سے زیادہ ذلیل کسی کو نہیں پایا کہ میں ان درہموں کو مٹی سے چن چن کر اُٹھارہا تھا۔
٭٭٭
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کا طواف کررہا تھا کہ اس اثنا میں ایک نور چمکا جس کی تابانی آسمان تک پہنچ رہی تھی۔ مجھے بہت ہی تعجب ہوا۔ جب میں اپنا طواف پورا کرچکا تو میں دیوار کعبہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا اور اس نور کے بارے میں سوچتا رہا۔ یک بارگی ایک غمزدہ آواز میرے کانوں میں پہنچی۔ میں اس آواز کی طرف بڑھا۔ دیکھا تو ایک کنیز (امرة مجہولہ رحمہااللہ) ہے جو کعبہ کے پردوں سے لٹک رہی ہے اور کہتی ہے۔
”اے میرے حبیب تو جانتا ہے۔ تو خوب ہی واقف ہے کہ جسم کی لاغری اور یہ آنسو دونوں پوشیدہ طور پر فریاد کرہے ہیں کہ میں نے محبت کو چھپایا اور یہاں تک چھپایا کہ چھپانے سے میرا سینہ تنگ ہوگیا۔“
یہ سن کر میں ایک طرف کو ہوگیا اور اس کے درد سے خود رونے لگا۔
اس نے پھر کہا ”الھی وسیدی ومولائی بحبک الی الاعفرتنی“
یہ سن کر میں اس کے پاس گیا اور کہا ‘”اے کنیز! تو نے یہ کہا کہ بحبک لی (تجھے اس محبت کی قسم جو میرے ساتھ ہے) کیا یہ کافی نہیں تھا کہ تو یوں کہتی بحبی لک لاس محبت کی قسم جو مجھے تیرے ساتھ ہے تجھے کیا معلوم ہے کہ وہ تجھ کو دوست رکھتا ہے۔“ اس نے کہا کہ خدا کے ایسے خاص بندے بھی ہیں جن کو وہ دوست رکھتا ہے پھر وہ اس کو دوست رکھتے ہیں۔ کیا تم نے خدا وند تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا ”فسون یاتی اللہ بقوم بحبھم ویحبونہ (یعنی قریب ہے کہ خداوند تعالیٰ ایسی قوم کو لائے گا جس کو دوست رکھتا ہے اور وہ اس کو دوست رکھتے ہیں) خداوند تعالیٰ کی جو محبت ان سے ہے وہ پہلے ہے اس محبت سے جو ان کو خداوند تعالیٰ سے ہے۔“
میں نے کہا ”میں تم کو بہت ہی لاغر اور ضعیف دیکھ رہا ہوں، کیا تم بیمار ہو؟“
کنیز نے کہا ”خدا کا محب دنیا میں بیمار رہتا ہے اس کی بیماری طویل ہے۔ اس کا علاج اس کی بیماری کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا ہی وہ شخص ہے جو اس کا محب ہے کہ اس کے ذکر سے سرگرداں ہے یہاں تک کہ وہ اس کو دیکھ لے۔“
اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ کہاں چلی گئی۔
٭٭٭
ایک دن ایک درویش خواجہ عبدالخالق غجدوانیؒ کے روبر وکہنے لگا کہ اگر خداوند تعالیٰ مجھے جنت یا دوزخ میں جانے کا مختار بنا دے تو میں دوزخ میں جانے کو پسند کروں گا۔ کیونکہ میں نے تمام عمر اپنے نفس کی خواہش کی مخالفت کی ہے اور اس صورت میں یقینا میرے نفس کی خواہش ہوگی کہ وہ بہشت میں جائے اور دوزخ میں جانا خداوند تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگا۔
خواجہ نے اس درویش کی بات کو رد کیا اور فرمایا کہ بندے کو اپنے اختیار سے کیا کام وہ جہاں جانے کا حکم دے گا وہاں ہم جائیں گے اور جہاں فرمائے گا کہ یہاں رہو وہاں رہیں گے۔ یہ نہیں جو تم کہتے ہو۔“
اس درویش نے کہا کہ شیطان کو سالک پر کچھ قابو ہے یا نہیں۔“
خواجہ نے جواب دیا ”اسے سالک پر اس کو قابو ہے جو فنائے نفس کی حد تک نہ پہنچا ہو۔ جب ایسے سالک کو غصہ آتا ہے تو شیطان اس پر قابو پالیتا ہے لیکن ایسا سالک جو فنائے نفس کی حد تک پہنچ گیا ہے، شیطان سے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایسے سالک کو غصہ نہیں آتا بلکہ اس کو غیرت ہوتی ہے اور جہاں غیرت ہے وہاں سے شیطان بھاگتا ہے اور یہ وصف ایسے شخص کے لیے مسلم ہے جو خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں کتاب الہٰی ہوتی ہے اور بائیں ہاتھ میں وہ سنت رسول ﷺ کو لیے ہوتا ہے اور ان دونوں روشنیوں میں وہ راستہ طے کرتا ہے۔“(جاری ہے)