اللہ والوں کے قصّے... آخری قسط
حضرت بی بی ام محمد رحمہا اللہ تعالیٰ حضرت شی عبدالقادرؒ گیلانی کی پھوپھی ہیں بہت نیک بخت خاتون تھیں۔
ایک بار گیلان میں سخت قحط پڑا۔ لوگ نماز استسقا پڑھنے کیلئے میدان میں گئے۔ نماز استسقا پڑھی مگر بارش نہ ہوئی۔ تب تمام لوگ ام محمدؒ کے مکان پر گئے اور بارش کے لیے ان سے دعا کے طالب ہوئے۔
وہ اس وقت مکان کے صحن میں جھاڑو دے رہی تھیں۔ انہوں نے کہا ”خداوند! میں نے جھاڑو دے دی ہے اب تو چھڑکاﺅ کردے۔“
تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس قدر بارش ہوئی۔ معلوم ہوتا تھا کہ مشکوں کے دھارنے کھول دئیے گئے ہیں۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 163 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک روز بی بی فاطمہ نیشا پوری رحمہا اللہ تعالیٰ نے حضرت دوالنون مصریؒ کے پاس کچھ بھیجا۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور کہلا بھیجا” عورتوں کا ہدیہ قبول کرنے میں ذِلّت اور نقصان ہے۔“
اس کے جواب میں فاطمہؒ نے کہا” دنیا میں کوئی صوفی اس سے بہتر اور بزرگ تر نہیں جو سِیپ کو درمیان میں نہیں دیکھتا۔“ اور ذوالنون مصریؒ نے سِیپ کو درمیان میں دیکھا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت عبدااللہ گارزدنیؒ سفر کے ارادے سے منشاپور میں آئے۔ ایک دن وہ مسجد میں تھے کہ ایک بزرگ نے بڑے پر رعب انداز میں ان سے کہا کہ کہاں جاتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ سفر پر۔
پھر پوچھا”تمہارے پاس زادِ راہ بھی ہے۔“
بولے ”نہیں۔“
پیِر مرد نے کہا۔”پھر کیسے سفر کرو گے؟“
انہوں نے جواب دیا” جہاں ضرورت پڑے گی وہاں مانگ لوں گا۔“
پِیر مرد نے کہا” تم کو ان دو ہستیوں میں سے کون زیادہ پسند ہے۔ وہ جو تم کو کچھ یا کچھ بھی نہ دے“
پَیر مرد نے کہا ”ابھی تم خام ہو۔ دوست اس کو سمجھنا چاہیئے جو کچھ نہ دے۔ اس لیے کہ جو کوئی تم کو کچھ دیتا ہے تو وہ تم کو خدا سے ہٹا کر اپنی طرف بلاتا ہے (اس سے تمہارا دِل اس کا گرویدہ ہو جائے گا) اور جو شخص تم کو کچھ نہیں دیتا وہ تم کو خدا کی طرف بھیج رہا ہے پس اسی کو دوست سمجھنا چاہئیے۔ جو خدا کی طرف بھیجے کہ وہ تم کو خدا کا راستہ دکھا رہا ہے۔“
اس کے بعد شیخ گارزونیؒ فرماتے ہیں کہ میں سفر کے ارادے سے باز رہا۔ تاکہ میں اپنے اِس معاملہ کو پہلے دوست کرلوں۔
چنانچہ وہ آگے نہ بڑھے اور پھر باقی زندگی جس طرح گزری وہیں گزاردی۔
(ختم شد)