دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر60
ہم دوبارہ چلنے لگے اور آخر کار یہ استقبالی قطار ایک بلند و بالا دروازے پر ختم ہوئی۔ ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی دروازے کے دونوں پٹ کھل چکے تھے۔ یہاں سے رضوان واپس لوٹ گئے اور میں صالح کے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔ رہائش گاہ کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ کاٹج، ہٹ، گھر، مکان، عمارت، بلڈنگ، بنگلہ، کوٹھی اور محل، قصر اور شہر جیسے تمام الفاظ میری اس رہائش گاہ کو بیان کرنے کے لیے قطعاً ناکافی تھے۔ یہ تاحد نظر پھیلا ہوا ایک وسیع علاقہ تھا جو سرسبز پہاڑوں، ان پر بنے فلک بوس محلات، ان کے دامن میں میلوں پھیلے باغات، ان کے نیچے بہتی ندیوں اور دریاؤں کا ایک ایسا مجموعہ تھا جن کے بیان کے لیے شاید الفاظ تو وہی ہیں جو میرے ذہن میں تھے ، مگر ان کی حقیقت ، ان کا حسن اور ان کی شان و شوکت ایک بالکل مختلف چیز تھی۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے اس وسیع منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے صالح سے دریافت کیا:
’’اتنے سارے محلات میں سے میری رہائش گاہ کون سی ہے؟‘‘
اس نے ہنستے ہوئے کہا:
’’یہ محلات تمھاری رہائش گاہ نہیں۔ یہ تمھارے قریبی خدام کی رہائش گاہ ہیں۔ تمھاری رہائش یہاں سے کافی دور ہے۔ تم چاہو تو پیدل بھی جاسکتے ہو، مگر بہتر ہے کہ اپنی سواری میں جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اس سمت دیکھا تو ایک انتہائی شاندارمگر قدرے چھوٹاسا گھربنا ہوا تھا۔ چھوٹا اس دنیا کے حسا ب سے تھا وگرنہ پچھلی دنیا کے اعتبار سے یہ کوئی عظیم الشان محل جتنا وسیع تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ صالح توجہ نہ دلاتا تو میں کبھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ مکمل طور پر شیشے کا بنا ہوا اور اتنا شفاف تھا کہ اس کے آر پار سب کچھ نظر آرہا تھا۔ صالح آگے بڑھا تو میں اس کے پیچھے اس خیال سے چلا کہ اس گھر میں کوئی گاڑی وغیرہ جیسی سواری کھڑی ہوگی۔ مگر وہ سیدھا مجھے اس گھر کے وسط میں موجود ایک کمرے میں لے گیا جہاں ہیرے جواہرات سے مرصع شاہانہ انداز کی عالیشان نشستیں نصب تھیں۔ صالح نے مجھے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر وہ بولا:
’’یہ تمھاری سواری ہے جو تمھیں تمھاری منزل تک پہنچادے گی۔ میں تمھیں تنہا چھوڑ رہا ہوں تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کے اصل بادشاہ تم ہو۔ تمھیں کسی سہارے، کسی خادم اور کسی فرشتے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم جو چاہو گے وہ خود بخود ہوجائے گا۔ اب میں تمھیں تمھارے گھر میں ملوں گا۔‘‘
قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا وہ باہر نکل گیا۔ صالح کی اس بات پر میں شاک میں آگیا تھا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جنت میں داخلے کے بعد سے میں ایک مسلسل شاک کی حالت میں تھا۔ ہر لمحے ملنے والے مسرت آمیز صدمات نے مجھے قدرے ماؤف کردیا تھا۔
تاہم کچھ دیر میں خود کو سنبھال کر میں سوچنے لگا کہ میں کہاں ہوں اور کیوں ہوں؟ اور یہ کہ صالح نے مجھ سے ابھی کیا کہا تھا۔ صالح کے الفاظ کو میں نے ذہن میں دہرایا اور اس کی بات کا مطلب سمجھ میں آتے ہی مجھ میں انتہائی غیر معمولی اعتماد پیدا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میری بادشاہی اس لمحے سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم سوال یہ تھا کہ یہ گھر یا سواری چلے گی کیسے۔ میں نے دل میں سوچا کہ صالح نہیں ہے تو کیا ہوا وہ رب تو اس لمحے بھی میرے ساتھ ہے جو دنیا میں زندگی بھر میرے ساتھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے بے اختیار قرآن کریم کا یہ بیان یاد آگیا کہ جنت میں بندوں کی ہر درخواست سبحان اللہ کہنے سے پوری ہوجایا کرے گی۔ میں نے دھیرے سے کہا:
’’سبحان اللہ‘‘
اس کے ساتھ ہی یہ گھر جو ایک سواری تھی خود بخود فضا میں بلند ہونے لگا۔ میں خوشی سے کھلکھلا اٹھا اور میں نے زور سے پکار کر کہا:
’’بسم اللہ مجریہا و مرسہا‘‘
یہ پیغمبر نوح علیہ السلام کے الفاظ تھے جوآپ نے اپنی کشتی میں بیٹھ کر کہے تھے۔ میری سواری دھیرے دھیرے ایک سمت بڑھنے لگی۔ میں خاموشی سے سر ٹکاکر نیچے پھیلے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گھر دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ نیچے شام کا سا دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہر طرف مکمل تاریکی چھاگئی۔ اس کے ساتھ ہی شیشے کا یہ گھر دودھیا رنگ کی اُس روشنی سے جگمگا اٹھا جس کا ماخذ اور منبع کہیں نظر نہ آتا تھا۔(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)