مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 6
تقدیر نے خود محمد رفیع کی رہ نمائی کی تھی ۔ان کے سینے میں جوش اور جذبہ تو تھا مگر غنایت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔وہ سینے سے ،گلے سے ا ور پیٹ سے بھی گا لیتے تھے اور ایسی استعداد بہت کم کو نصیب ہوتی ہے ۔جو گلوکار صرف گلے سے گاتے ہیں وہ گلے سے اوپرتان نہیں لگا سکے اور جن کا سینہ بولتا تھا وہ اپنے مقام پر ٹھہرے رہے لیکن محمد رفیع کو ان تینوں مقامات سے گانا خوب رچا کر گانا آیا ۔کچھ گائیک تو ناک سے بھی گاتے ہیں لیکن اساتذہ کے نزدیک ایسے لوگ گائیک کا درجہ نہیں رکھتے ۔
محمد رفیع جب لاہور میں واردہوئے تو میلوں ٹھیلوں میں گانے کے لئے انہیں سینے اور پیٹ کا زور لگانا پڑتا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کافی قوت درکار ہوتی ہے ۔اسپیکر کی مدد کے بغیر بھی گانا پڑتا تھا ۔اس زمانے میں گائیک کو بھی پہلوانی کرنا پڑتی تھی ۔جیسے مہدی حسن تھے ،اللہ جنت نصیب کرے ،ان کے گلے میں بھگوان بولتا تھا اور یہ ریاضت انہوں نے پہلوانی میں دم قائم کرکے پختہ کی تھی۔گائیک کے لئے اپنا سانس و دم پر قابو پانا مہارت اور صلاحیت کا متقاضی ہوتا ہے ۔لیکن محمد رفیع کو پہلوانی نہیں کرنی پڑی ۔کوئی اس رمز کو نہیں پاسکا کہ ان کا دم اتنا مضبوط کیوں تھا ۔
بات سے بات نکلی ہے تو مزے کی یہ بات بھی سناتا چلوں کہ 1993میں استاد نصرت فتح علی خان سے انکے گھر میری ملاقات ہوئی تو ہماری تواضع کے ساتھ ساتھ انہیں ایک بڑے سے پیالے میں سوپ دیا گیا ۔اس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔میں نے سوال کیا ” خان صاحب کبھی وزن کم کرنے کا خیال آیا “
باریک سی آواز میں بولے ” آیا تھا ۔پہلی بار جو ہمت کی تو دوبارہ یہ جرات نہیں ہوئی وزن کم کرنے کی “
میں نے متعجب ہوکر دیکھا تو بات جاری رکھتے ہوئے بولے” وزن کم ہونے سے میرے سُر بیٹھ گئے تھے ۔“ وہ سمجھانے لگے” کلاسیکل گائیک کا یہ بڑا مسئلہ ہے ۔اس کا جسم جہاں کھڑا ہواس میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہئے ۔اس کا اثر آواز پر بھی پڑتا ہے۔مجھے جب اس کا تجربہ ہوا تو پھر میں نے وزن اور پیٹ کم کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میرا پیٹ کا زور لگتا ہے “
نصرت فتح علی خان کی یہ بات برحق ہے،جینوئن کلاسیکل گائیک بڑا پرہیز گار ہوتا ہے ۔اگر وہ علتوں میں پڑجائے تو اسکے شوق اسکو لے بیٹھتے ہیں ۔کئی ایسے نوآموز گلو کاروں کو دیکھا ہے جو محمد رفیع کی آواز لیکر پیدا ہوئے لیکن ذرا سی واہ واہ نصیب ہوئی ،جامے سے باہر نکل گئے اور ایسے نوابی شغلوں میں پڑے کہ منزل سے کوسوں دور ہی ڈھ گئے۔حقیقت یہی ہے کہ منزل تک پہنچنے کے لئے مستقل مزاجی اور پرہیزگاری بطور زادراہ ساتھ ہونی چاہئے ۔
محمد رفیع کو استاد ملے تو ان کے سُر لے نکھرتے چلے گئے اور بہت جلد انہوں نے اپنی آواز کو ہر رنگ اور آہنگ میں ڈھال لیا ۔ آواز میں ورسٹائل تھے ،تعاون اور انکساری کرنا جانتے تھے ۔اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے میں عار نہیں سمجھتے تھے اس لئے استادوں نے بھی انہیں خوب عطا کیا ۔مہاراج کتھک غلام حسین کہا کرتے تھے کہ باادب فن کارسب کچھ پالیتا ہے۔گرو استاد اس سے کوئی بھید نہیں رکھتا ۔مہاراج کتھک کی محمد رفیع سے بمبئی میں ملاقات ہوئی تھی ۔وہ کہاکرتے تھے کہ رفیع جی سے زیادہ منکسر المزاج گلوکار انہوں نے کوئی اور نہیں دیکھا ۔وہ عروج کی طرف گامزن تھے لیکن اپنے استادکی جوتیاں تب بھی سیدھی کرتے تھے اور اسکواپنی عزت سمجھا کرتے تھے ۔ یہی انکسار ان کے لئے باعث مراد بن گیا ۔
استاد فیروز نظامی نے محمد رفیع کے دل میں بمبئی کی جوت جگا دی تھی اور انہیں وہ راہ دکھا دی تھی جس کے وہ مسافر تھے ۔ایک روز تین لوگوں میں اس پر بحث ہوگئی ۔یہ محمد دین ،بھا حمید اور خود محمد رفیع تھے اور موضوع بمبئی کا فلمستان تھا ۔بھا حمید نے صاف صاف کہہ دیا تھا ” لاہور میں رفیع کا دانا پانی نہیں ہے ،اسکو بمبئی جانا ہوگا “
” میاں جی نہیں مانیں گے ۔میں تو چاہتا ہوں کہ یہ اپنی قسمت آزمائے اور میں نے سنا ہے کہ شیام جی بھی تو بمبئی میں ہیں ۔انہوں نے کارڈ دیا تھا کہ جب کبھی من کرے تو بمبئی آکر ان سے ملنا“ محمد دین کو چندسال پرانی بات یاد آگئی لیکن جب وہ شیام سندر کا کارڈ تلاش کرنے لگے تو کوشش ضائع گئی ۔افسردہ ہوئے اور کہا” وہ بڑا سہارا بن سکتا تھا ۔اب اسکو کہاں تلاش کریں گے “
محمد رفیع نے بھولپن سے کہا” بھا جی اللہ سوہنے سے بڑا کوئی سہارا نہیں ہے ۔اسے منظور ہوا تو راستہ بن جائے گا “
بھا حمید بھی اس عقیدے اور یقین کا مالک تھا ۔پس طے پاگیا کہ محمد رفیع کو بمبئی چلے جانا چاہئے ۔محمد دین نے حمید سے کہا” یار تم سے زیادہ اسکا خیال کون رکھ سکتا ہے ۔رفیع کے ساتھ بمبئی تم بھی چلے جاو تاکہ مجھے کوئی فکر نہ رہے “
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 5
محمد دین نے اپنے والد کو محمد رفیع کے بمبئی جانے پر راضی کرلیا اور سب لوگوں نے بادل نخواستہ انہیں بمبئی کے لئے رخصت کردیا ۔چند سو روپے دئےے اور دونوں نوجوان روشنویں کی تلاش میں بمبئی پہنچ گئے ۔غالب امکان ہے کہ محمد رفیع 1943میں بمبئی پہنچے ۔ سستی اور مناسب رہائش کی تلاش میں وہ بھنڈی بازار پہنچ گئے ۔وہاں انہیں سوسالہ الکا مینشن میں ڈربہ نما کمرہ مل گیا ۔یہ پانچ منزلہ عمارت تھی جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔خوش قسمتی سے دوسری منزل پر محمد رفیع کو جو کمرہ ملا اسکا رخ بازار کی جانب تھا اور وہاں سے نواب مسجد دکھائی دیتی تھی ۔وہ نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرتے تھے اسلئے دل کو گونا ں سی راحت محسوس ہوئی ۔
الکا مینشن گزارہ لائق تھی ۔اس میں غسل خانے اجتماعی تھی اور چھوٹے چوحتے کمرے ایکس اتھ ویں جڑے تھے کہ ذرا کوئی اونچا بولتا تو دیوار کے دوسری جانب کوئی بھی کان لگائے بغیر باتیں سن لیتا تھا ۔محمد رفیع کو ریاض کی عادت تھی لیکن الکا مینشن میں یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔جب سے وہ اساتذہ سے پڑھنے لگے تھے انہیں اب ریاض روزانہ کرنا ہوتا تھا ۔ماسٹر فیروز نظامی کا یہ سبق وہ بھول نہیں پاتے تھے کہ کھانا بے شک نہ ملے ریاض کرنا نہ چھوڑنا ۔محمد رفیع کی یہ عادت ایسی پختہ رہی کہ جب وہ اوج ثریا تک پہنچ گئے ،کسی پروگرام میں شرکت سے پہلے بھی ریاض کیا کرتے تھے۔اگر کوئی ان سے کہتا کہ حضور آج آپ کی پرفارمنس ہے ،آرام کرلیں تو بولتے ” نہیں بھائی ،پہلے میں اپنا گلا صاف کرلوں “ اور وہ اپنا گلا صاف کرنے کے لئے گھنٹوں صرف کرتے تھے ۔حالانکہ ان کے دور میں بڑے بڑے گائیک ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے ،وہ گانوں کی ریکارڈنگ کے دوران بھی گانے کی ریہرسل کرنا شان کے خلاف سمجھا کرتے تھے ۔لیکن ایک فقیرمحمد رفیع تھا جو رنگ ونور کی دنیا کے تکبر و رعونت سے بے نیاز تھا (جاری ہے )
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں