بجٹ2024-25ء اور معاشی استحکام کی خوش فہمی
اٹھارہ ہزار آٹھ سو ستتر(18877) ارب روپے کا بجٹ 2024-25ء قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے اس دستاویز میں درج بہت سے معاملات تدریجاً ظاہر ہو رہے ہیں جس سے اس بجٹ کی اچھائیاں اور کمزوریاں سامنے آ رہی ہیں اور اس کے مطابق عوام اور خواص کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔یہ بجٹ وزارت خزانہ نے تیار کیا،جس کی سربراہی ایک ایسے فرد کے پاس ہے جس کا اسمبلی،پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے انہیں پاکستانی کے زمینی حقائق سے متعلق معلومات بھی نہیں ہیں،انہیں عوام کے ساتھ کوئی ہمدردی بھی نہیں ہے، انہیں الیکشن بھی نہیں لڑنا ہے کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گے وہ ایک خاص لابی کے مفادات کو یقینی بنانے کے لئے، یہاں لائے گئے ہیں اور وزیر خزانہ بنائے گئے ہیں ان کے ساتھ ایک منتخب، لائق نوجوان علی پرویز ملک کو نتھی کر دیا گیا تھا تاکہ وہ ان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے صحافیوں کے جواب دے سکیں انہیں مطمئن کر سکیں۔
اس بجٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے آئی ایم ایف نے سراہا ہے، اطمینان کا اظہار کیا ہے ویسے یہ بجٹ تیار ہی فنڈ کی ہدایات بلکہ احکامات کی روشنی میں کیا گیا ہے،بجٹ کا بنیادی ڈھانچہ، ٹیکس، ٹیکس اور ٹیکس وصولیوں پر کھڑا ہے،گزرے سال 2023-24ء کے مقابلے میں سال2024-25ء کے دوران30فیصد زائد ٹیکس وصولیوں کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو کہ قطعاً حقیقی نظر نہیں آ رہا ،حکومت نے سرکاری دستاویزات بشمول اکنامک سروے اور بجٹ دستاویز میں لکھا ہے کہ مالی سال2024-25ء کے دوران معاشی نمو 3.6 فیصد رہے گی اور افراطِ زر 16فیصد ہے،اس طرح30فیصد زائد ٹیکس وصولیوں کے طور پورے کیئے جائیں گے، ہمارے وزیر خزانہ وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے تشکیل کردہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ناکام ہو چکا ہے گویا حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے اور پھیلانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اِس لئے پہلے سے نیٹ میں موجود ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے اِس حوالے سے سرکاری ملازمین اور تنخواہ دار سب سے بڑا مظلوم طبقہ ہے جو ٹیکس ادا کر کے نڈھال ہو چکا ہے۔ بجٹ2024-25ء میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں 25فیصد تک بڑھوتی دی گئی ہے بظاہر یہ بات اچھی اور معقول نظر آ رہی ہے۔بادی النظر میں انہیں سہولت دی گئی ہے،لیکن دوسری طرف ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کر کے سب کچھ واپس لے لیا گیا ہے،اس حوالے سے وزیر خزانہ سے سوال بھی پوچھا گیا تھا لیکن انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے احتراز کیا، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر بات کی تو حقیقت کھل جائے گی اور اس حوالے سے کی جانے والی جادوگری کا پول کھل جائے گا۔حکومت ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے،یعنی ٹیکس نیٹ بڑھانے یا پھیلانے میں ناکام ہو چکی ہے اس لئے ٹیکس وصولیوں پر آئی ایم ایف کی ہدایات کا بوجھ لادا جا رہا ہے، کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں ہے۔وزیر خزانہ بڑی وضاحت سے کہہ چکے ہیں ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے، نیا قرض لینے کے سوا کوئی آپشن موجود ہی نہیں ہے۔ پاکستان اب تک23 پروگرام/ قرض پروگرام آئی ایم ایف سے لے چکا ہے۔24واں پروگرام لینے کے لئے معاملات چل رہے ہیں اور اس پروگرام کی شرائط کے مطابق حالیہ بجٹ تیارکیا گیا ہے۔ فنڈ نے وضاحت سے بتا دیا تھا کہ آپ پہلے ہماری شرائط کے مطابق بجٹ پیش کریں تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ آپ اس سمت میں جا رہے ہیں جدھر ہم لیجانا چاہتے ہیں ہم نے بجٹ2024-25ء میں ان تمام اہداف کو عملی شکل دے دی ہے یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے سب سے پہلے بجٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔دوسری طرف عوامی نمائندوں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے عوامی نمائندے جو اسمبلیوں میں موجود ہیں اور وہ بھی جو اسمبلیوں میں موجود نہیں ہیں، بجٹ پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔اسمبلی میں موجود اپوزیشن اراکین حسب ِ روایت اس بجٹ پر سخت تنقید کر رہے ہیں ان سے تو تنقید کی توقع بھی کی جاتی ہے حیران کن بات یہ ہے کہ حکومتی اتحادی جماعت، پیپلزپارٹی بھی اس بجٹ کا دفاع کرنے کی بجائے اس سے لاتعلقی کا اعلان کر رہی ہے۔پیپلزپارٹی نے نہ صرف بجٹ سے لاتعلقی کا اعلان کیا بلکہ بجٹ سیشن کا بائیکاٹ بھی کیا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسحاق ڈار کے منانے کے بعد وہ سیشن میں واپس آ گئے، لیکن پارٹی لیڈر بلاول بھٹو نے شرکت سے اجتناب کیا۔
اس بجٹ پر عملدرآمد کی صورت میں صنعتی و تجارتی فلاح و بہبود کا امکان نہیں ہے،بجلی، گیس کے بڑھے ہوئے ریٹس کی موجودگی او ر اب ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث معاشی نمو کا ہدف حاصل ہونا، ناممکن نظر آ رہا ہے۔مالی سال 2023-24ء میں بھی معاشی نمو کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا،لیکن حکومت نے وصولیوں کے اہداف حاصل کرنے میں دن رات ایک کئے رکھا۔ امسال بھی ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ہم آئی ایم ایف کے23پروگرام مکمل کر چکے ہیں، 24واں پروگرام لینے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں اور25 ویں کی ضرورت کی باتیں ابھی سے کی جانے لگی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام، پاکستان کو معاشی استحکام سے آشنا نہیں کر سکے، یہ فنڈ کے ساتھ کئے جانے والے معاملات کا نتیجہ ہے کہ ہمارا قومی قرضہ ہمارے لئے سوہانِ روح بن چکا ہے ہمارے کل بجٹ کا50 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر اُٹھ جاتا ہے ہم قرض ادائیگی کے لئے نئے قرض لینے پر مجبور ہیں اس طرح قرضوں کا حجم روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف کو قائم ہوئے سات سے زائد دہائیاں گزر چکی ہیں اس عرصے کے دوران ہمیں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ فنڈ نے کسی بھی فرض لینے والے ملک کو معاشی استحکام سے دوچار کیا ہو۔کوئی ایک بھی ملک آئی ایم ایف کے ذریعے اس کے پروگراموں پر عملدرآمد کر کے معاشی خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہوا ہے۔ہم بھی معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں ہم فنڈ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں نئے سے نیا پروگرام/پیکیج حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو ہمارے ہاں معاشی استحکام آ جائے گا،ہمیں معاشی خوشحالی کا سامنا ہو گا،ہمارے دن پھریں گے، لیکن 23 پروگرام مکمل کرنے کے بعد بھی ہنوز دلی دور است،24واں یا25واں پروگرام بھی ہمیں معاشی خوشحالی سے ہمکنار نہیں کر سکے گا۔ہمیں کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہو گا۔