معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ چالیسویں قسط
ملائیشیا کا سفر
ہم ہفتے کی صبح بذیعہ بس ملائیشیا روانہ ہوئے۔ یہ سفر تقریباً چھ گھنٹے کا تھا۔ ہموار اور کشادہ سڑک پر ایک آرام دہ بس میں یہ سفر بہت سہولت کے ساتھ طے ہوا۔ راستے میں دونوں ممالک کا باڈر آیا۔ بس میں موجود سنگاپور اور ملائیشیا کے شہری باآسانی دوسری طرف چلے گئے۔ مگر ہمیں ویزہ لینے ایک دوسرے کمرے میں جانا پڑا۔ میرا خیال یہ تھا کہ ہمارے پاسپورٹ پر ایک انٹری ہوگی، جیسا کہ سری لنکا وغیرہ میں پاکستانیوں کے لیے ہوتی ہے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہمیں ویزہ لینا ہوگا۔ ویزے کے لیے وہاں موجود افسروں نے ہماری واپسی کے ٹکٹ، ہوٹل ریزرویشن وغیرہ چیک کیے۔ اس کے بعد ویزہ فیس کا مطالبہ کردیا۔ میرے پاس مطلوبہ تعداد میں رنگٹ (ملائیشیا کی کرنسی) نہ تھی۔ بارڈر پر ڈالر ایکسچینج کرنے کی کوئی جگہ اور انتظام نہ تھا۔ دوسری طرف مجھے یہ اندیشہ تھا کہ بس والا ہمیں چھوڑ کر نہ چلا جائے کیونکہ ہمارے سوا سب لوگ انٹری کرواکر بس میں بیٹھ چکے تھے۔ میں نے ویزہ افسر کو یہ مسئلہ بتایا۔ آخرکار اس نے ایک آدمی سے بات کی اور ہمیں منہ مانگی قیمت پر مطلوبہ تعداد میں رنگٹ خریدنے پڑے۔ کچھ دیر میں ہمیں ویزا مل گیا اور ہم آگے روانہ ہوئے۔
انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس واقعے کے بعد بس کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر میں سوچنے لگا کہ یہ کیسی غیر متوقع اور پریشان کن صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ مجھے انٹری ویزا اور اس کی فیس کا معلوم ہوتا تو سنگاپور سے رنگٹ لے کر آتا۔ میں نے تو راستے کی ضروریات کے لیے رنگٹ خریدے تھے اور باقی ملائیشیا میں لینے کا ارادہ تھا۔ معلوم ہوتا تو ڈرائیور کو بھی بتادیتا کہ میرا انتظار کرنا اور پھر سکون سے سارا معاملہ ہوتا۔
بے اختیار اللہ تعالیٰ سے روزِ حشر کی پریشانی سے پناہ مانگی۔ وہاں کچھ لوگ میری طرح بڑے اطمینان اور اعتماد سے پہنچیں گے کہ سب ٹھیک ملے گا۔ فرشتے ہر مسلمان سے بس کلمہ سنیں گے اور جنت کی انٹری کا ٹھپا لگاکر کہیں گے کہ مزے کرو۔ کوئی اور مسئلہ ہوا تو شفاعت تو ہوہی جانی ہے۔ مگر قرآن تو بتاتا ہے کہ سچے ایمان اور عملِ صالح کے بغیر جو شخص آئے گا اس کے لیے اس روز پریشانی ہی پریشانی ہوگی۔ ان کا سارا ا عتماد اور یقین بھاپ کی طرح اڑجائے گا۔ اول تو کسی کے پاس کوئی مال و متاع ہوگا نہیں پھر اگر ہوا بھی تو دنیا کے ڈالرز کو جنت میں قابلِ قبول رنگٹ میں بدلنے والا کوئی شخص نہ ہوگا۔ جنھوں نے انسانوں کے حقوق مارے اور ظاہری عبادات ادا کرتے رہے، ان کے درمیان البتہ ضرور لین دین ہوگا۔ اس طرح کہ جس کا مال کھایا، اپنی نیکیوں کو بدلے میں اسے دینا ہوگا اور آخر کار ساری نیکیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ پھر اس کے گناہ اپنے سر لینے ہوں گے۔ کیسا برا اعتماد ہے جو آدمی کو اس انجام تک پہنچادے گا۔
زمین کے دو زیور
ملائیشیا میں داخل ہوتے ہی دو تاثر قائم ہوئے جو آخری وقت تک رہے۔ ایک یہ کہ درخت زمین کا زیور ہیں اور ملائیشیا کا چپہ چپہ اس زیور سے سجا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ حیا عورت کا اصلی زیور ہے۔ یہ زیور سنگاپور میں جتنا کمیاب تھا یہاں اتنا ہی وافر موجود تھا۔ ملائیشیا میں ہر چھوٹی بڑی جگہ خواتین کام کرتی ہوئی نظر آئیں مگر چینی نسل کی خواتین کے برعکس ہاتھ اور چہرے کو چھوڑ کر وہ مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں۔
لباس کسی خاتون کی حیا کا معیار تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک اظہار ضرور ہوتا ہے۔ ملائیشیا کی خواتین نے اگلے ایک ہفتے میں ہمیں یہ بتایا کہ انتہائی گرمی کے موسم میں جب باریک، چست اور کم لباس کو دنیا بھر کی خواتین اپنی مجبوری بنالیتی ہیں، باحیا خواتین نہ صرف گھر سے باہر انتہائی سخت موسم میں کام کرسکتی ہیں بلکہ لباس میں بھی اپنی حیا اور عفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ سکتی ہیں۔ خدا کی نظر میں زمین کا اصل زیور یہی باحیا خواتین ہیں۔ کل قیامت کے دن خدا ان کو جنت کے زیور پہناتے وقت بہت سخاوت سے کام لے گا۔
اس سفر میں کئی پاکستانی خواتین نظر آئیں۔ کاش وہ بھی مقامی خواتین سے کچھ سبق سیکھ لیتیں۔ وگرنہ لگتا یہی تھا کہ انہوں نے یہی سبق سیکھا ہے کہ ملک میں رہتے ہوئے جو رہی سہی پابندی ہوتی ہے اسے ائیرپورٹ پر چھوڑ کر آنا چاہیے اور جینز کی پینٹ اور بنیان پہن کر اپنے روشن خیال ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ میری اہلیہ کے معاملے میں اس حوالے سے ایک دلچسپ چیز سامنے آئی۔ ملائیشیا میں ان سے کئی جگہ لوگ ملائی زبان میں مخاطب ہوئے۔ تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ ان کے اور مقامی خواتین کے حیادار لباس کی مماثلت کی وجہ سے ہوا ہے۔
حبس زدہ کولا لمپور
میری بہن پروین سلطانہ حنا ؔ کا شعر ہے جو مجھے کولالمپور پہنچ کر بار بار یاد آتا رہا:
جہاں بھی جائیں تماشہ نیا دکھاتا ہے
ہمارے ساتھ ہمارا نصیب جاتا ہے
اس شعر کے یاد آنے کا سبب یہاں کا موسم تھا۔ بچپن میں پڑھا تھا کہ اس خطے کا موسم ایسا ہے کہ روز دوپہر تک سخت گرمی اور حبس ہوتا ہے اور سہہ پہر کے وقت بارش ہوتی ہے۔ سنگاپور کے بعد کولالمپور میں بھی ہمیں صرف حبس اور گرمی ملی، بارش ناراض بیوی کی طرح روٹھی رہی۔ سنگاپور میں بادلوں کے آثار بھی نہ تھے تو دل کو کچھ قرار تھا۔ مگر یہاں تو امنڈتے بادلوں کی بہار بھی بارش کے دل کی کلی نہ کھلاسکی اور وہ بدستور ہم سے خفا رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملائیشیا بلکہ عالمِ اسلام کے ایک ترقی یافتہ شہر میں ہم بہت بے مزہ رہے۔
دراصل سیاح کا سفر موسم کی ہمراہی میں طے ہوتا اور ان کی نظرِ کرم پر منحصر ہوتا ہے۔ باہر کے موسم کی ایک ایک ادا اندر کے موسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ باہر ہی اگر سوکھا پڑا ہو تو دل کی زمین خوشی کی پھوار سے محروم رہتی ہے، منظر ہی اگر صحرا کی طرح تپ رہا ہو تو نگاہوں کو تراوٹ نہیں پہنچاسکتا۔لیکن ہم سیاح تھے اور موسم کی ہر رُت کے ساتھ ہمیں گزارا کرنا تھا اس لیے حبس اور گرمی کے باوجود ہوٹل سے نکل جاتے اور گھومتے۔ مگر اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ تھکان بہت زیادہ ہونے لگی۔
بکٹ بنٹانگ (Bukit Bintang)
ہمارا ہوٹل جس علاقے میں تھا وہ بکٹ بنٹانگ کہلاتا ہے۔ یہ یہاں کا معروف سیاحتی علاقہ ہے جہاں بہت سے ہوٹل، شاپنگ سنٹرز اور سیاحوں کی دلچسپی کی دیگر چیزیں موجود تھیں۔ ہم دن رات میں کئی دفعہ یہ جگہ دیکھنے نکل جاتے۔ یہ پورا علاقہ دیکھنے کے قابل تھا۔ رات کے وقت یہاں کی روشنیاں اور رونق دونوں عروج پر ہوتیں۔ جبکہ دن کے وقت رونق تو ایسی ہی رہتی لیکن گرمی کی وجہ سے ہم زیادہ تر شاپنگ سنٹرز تک ہی محدود رہتے۔ یہاں ہر قدم پر مقامی ملائی لوگوں کے ساتھ چینی نسل کے لوگ نظر آئے۔ مذہب، ثقافت، زبان، لباس اور دیگر اختلافات کے باوجود دونوں بقائے باہمی کے اصول پر زندگی گزاررہے ہیں۔ میرے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ چینیوں کو ملائی لوگوں سے کچھ شکایات ہیں، مگر معاملات افہام و تفہیم کے اصول پر چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جیسے نسلی اور لسانی فساد کی نوبت نہیں آتی۔
گرچہ ملائیشیا کے لوگ مذہبی رجحانات کے حامل ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں نائٹ کلب اور شراب کی دکانیں عام ہیں۔ قحبہ گری پر گرچہ پابندی ہے مگر یہ علانیہ یہاں جاری ہے۔ ایک روز میں اور میری اہلیہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ دو کال گرلز نے ہمارے آگے جانے والے نوجوانوں سے معاملہ کرنے کی کوشش کی لیکن شاید ان کا معاملہ طے نہ ہوسکا۔ اسی طرح یہاں موجود بین الاقوامی شہرت کے حامل پلانٹ ہالی وڈ سے ایک سرنگ وہاں موجود ایک فائیو اسٹار ہوٹل تک جاتی ہے، اسے Love Tunnelکہا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کال گرلز سے معاملہ کرنے کے بعد لوگ انہیں سامنے سے لانے کے بجائے اسی راستے سے لے کر ہوٹل لوٹتے ہیں۔ یہ دورِ جدید کی وہ خرابیاں ہیں جنھوں نے ایک مسلم ملک کو بری طرح آلودہ کررکھا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جب تک تہذیبِ جدید کو الحاد، آخرت فراموشی اور دنیا پرستی سے نکال کر توحید پر استوار نہیں کیا جائے گا یہ مسائل باقی رہیں گے چاہے معاملہ پاکستان کا ہو یا کسی اور مسلم ملک کا۔
اس علاقے کی ایک اور خاص بات چینیوں کے قائم کردہ مساج سنٹر تھے۔ خاص کر پیروں کے مساج کے لیے یہ لوگ بہت اہتمام سے بلاتے تھے۔ اس کا سبب بالکل واضح تھا کہ سیاحوں کے قدم چلتے چلتے تھک جاتے تھے اور ایسے وقت میں مساج بہت راحت پہنچاتا ہے۔ میرے پیروں میں بھی گرمی میں گھوم گھوم کر شدید درد ہوگیا تھا۔ راستے میں یہ لوگ روک روک کر پیروں کے مساج کے لیے بلاتے تو اس تصور ہی سے سرور آتا، مگر ذہن میں مساج سنٹر کا ایک ایسا منفی تصور راسخ تھا (اور آگے چل کر بینکاک میں یہ سارے تصورات سچائی کے تلخ روپ میں سامنے آگئے) کہ میں چاہنے کے باوجود پیروں کا مساج نہیں کرواسکا۔