ڈاکٹر آفتاب کو کانسٹیبل کا شہید پیکیج ہی دے دیجیے
ہمارے ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک سانحہ رونما ہوتا ہے۔دو چار دن ہم مغموم رہتے ہیں۔ آنسو بہاتے ہیں، روتے رُلاتے ہیں اور چپ ہو جاتے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے لاہور کے قدیم اور تاریخی ادارے گورنمنٹ دیال سنگھ کالج کے شعبہ کیمیا کا ایک نوجوان لیکچرار ڈاکٹر آفتاب احمد مسلم ٹاؤن نہر کے اوپر بنے ہوئے فلائی اوور پر صبح سویرے، کیمیکل سے آلودہ ڈور گلے پر پھرنے سے تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ دو گھنٹے تک اُس کی خون آلود لاش پتھریلی سڑک پر پڑی رہی۔ لوگ گزرتے رہے۔ دیکھتے رہے۔ پتنگیں اڑانے والوں کو کوستے رہے۔ حکومت کو دِل ہی دِل میں بُرا کہتے رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ5مارچ کی صبح آٹھ بج کر چالیس منٹ پر مَیں گورنمنٹ دیال سنگھ کالج پہنچا تو کچھ رفقائے کار اداس اور خاموش کھڑے تھے۔ ایک دوست نے بتایا کہ ابھی کسی صاحب نے اطلاع دی ہے کہ آپ کے ادارے سے وابستہ ڈاکٹر آفتاب احمد گلے پر ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گئے ہیں،
ان کی جیب سے نکلنے والے کارڈ سے وہاں موجود لوگوں کو پتا چلا تھا کہ وہ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے ہیں۔اُن کے گھر کا کوئی نمبر یا پتا اُن کی جیب میں نہیں تھا۔ہمارے کچھ درد مند ساتھی فوراً جائے حادثہ پر پہنچے۔ اسی اثنا میں کالج میں پڑی فائل سے پتا چلا کہ اُن کا تعلق چونیاں کے قریبی گاؤں کنگن پور سے ہے۔ سو مَیں نے گورنمنٹ کالج چونیاں کے پرنسپل اور اپنے دیرینہ دوست محترم خالد بابر کو فون کیا۔انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر آفتاب احمد چونیاں کالج میں بھی کچھ عرصہ پڑھاتے رہے ہیں۔جب مَیں نے انھیں اس دِل دوز حادثے کی خبر دی تو انھوں نے فوراً ایک آدمی کو بائیک پر کنگن پور بھیج دیا تاکہ گھر والوں کو اس واقعے کی اطلاع دی جا سکے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد کے بھائی جاوید اقبال کو جونہی اطلاع ملی وہ مسلم ٹاؤن فلائی اوور پہ پہنچے۔ لاش ان کے حوالے کی گئی اور ضروری کارروائی کے بعد کنگن پور پہنچا دی گئی۔
کالج کے پرنسپل پروفیسر ارشد اقبال ارشد، پروفیسر اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے ساتھ جنازے میں شرکت کے لیے کنگن پور پہنچے۔اگلے د ن گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور کی گراؤنڈ میں مرحوم کی غائبانہ نمازِ جنازہ ہوئی۔ طلبہ اور اساتذہ نے لکشمی چوک میں علامتی احتجاجی و تعزیتی مظاہرہ کیا۔
میری اصل بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک نہایت پڑھا لکھا آدمی کسی جاہل کے گھٹیا شوق کی بھینٹ چڑھ گیا۔آفتاب احمد نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی،تحقیقی کام اُس نے امریکہ جا کر کیا تھا۔وہ چاہتا تو امریکہ ہی میں بس جاتا،لیکن وہ اپنے جیسے غریب اور متوسط لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی امیدوں پر پانی نہیں پھیرنا چاہتا تھا۔ سو گورنمنٹ دیال سنگھ کالج سے ایک بار پھر وابستہ ہو گیا، جہاں سے چھٹی لے کر وہ امریکہ گیا تھا۔
ہمارے ہاں پولیس کا ایک کانسٹیبل شہید ہو جائے تو آئی جی پنجاب اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں،اسے ڈیڑھ کروڑ روپے کا گھر دیتے ہیں،اس کی بیوہ اور والدین کو ایک کروڑ روپے شہید پیکیج کے تحت دیتے ہیں۔یہاں ہمارا ایک اعلیٰ دماغ چلا گیا،لیکن پنجاب حکومت اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام نے اس کے والدین سے پوچھنا تک گوارا نہیں کیا کہ اب آپ کی کفالت کون کرے گا؟ ڈاکٹر آفتاب کی سروس ابھی پانچ سال ہی ہوئی تھی، اسے ابھی بہت آگے جانا تھا، شادی ابھی ہونا تھی، اِس لیے اُس کی پنشن جاری نہیں ہو سکتی۔ کیا یہ صوبائی وزیر تعلیم یاسر ہمایوں صاحب اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ذمہ داری نہیں کہ صبح سویرے کلاس پڑھانے کے لیے آتے ہوئے جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دینے والے، شہید ِ تعلیم و تدریس ڈاکٹر آفتاب احمد کے بوڑھے ماں باپ کے آنسو پونچھیں؟ کیا گریڈ سترہ کے لیکچرار کو،ایک کانسٹیبل کا شہید پیکیج بھی نہیں دیا جا سکتا؟ مجھے پولیس حکام سے بھی گلہ ہے کہ ان کا کوئی اعلیٰ افسر تعزیت کے لیے کالج کے اساتذہ و طلبہ کے پاس آیا نہ مرحوم کے گھر پہنچا۔ایسی بے حسی صرف اساتذہ ہی کے ساتھ کیوں روا کھی جاتی ہے؟اگر گریڈ سترہ کا کوئی بیورو کریٹ اس طرح جاں بحق ہوتا تو مَیں جانتا ہوں کہ خزانوں کے منہ کھول دیے جاتے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چیف سیکرٹری پنجاب سے گزارش ہے کہ اساتذہ کرام کو انھی کے بناولنٹ فنڈ سے کوئی باعزت سواری خریدنے کے لیے قابل ِ واپسی قرضہ دینا شروع کریں۔ کب تک پڑھے لکھے لوگ اسی طرح موٹر سائیکلوں پر جانیں دیتے رہیں گے؟