چرچ میں حاضرین نے گرمجوشی سے استقبال کیا، ڈیوسٹ خاندان نے مجھے ایسے ہوٹل میں لنچ کروایا جہاں سے نیاگرا فالز کے نظارے دیکھے جا سکتے ہیں

چرچ میں حاضرین نے گرمجوشی سے استقبال کیا، ڈیوسٹ خاندان نے مجھے ایسے ہوٹل میں ...
چرچ میں حاضرین نے گرمجوشی سے استقبال کیا، ڈیوسٹ خاندان نے مجھے ایسے ہوٹل میں لنچ کروایا جہاں سے نیاگرا فالز کے نظارے دیکھے جا سکتے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:54
پہلے دن جب میں البین پہنچا تو اگلی صبح اتوار تھا۔ وہ تمام فیملی اپنے معمول کے مطابق چرچ جانے کے لئے تیار ہوئے اور مجھے بھی انہوں نے ساتھ آنے کے لئے کہا۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میں مسلمان ہوں مگر انہوں نے کہا کہ آپ مسلمان بھی تو حضرت عیسیٰؑ کو نبی مانتے ہیں۔وہاں ہم نے دعا ہی کرنی ہے۔ اس پر میں بھی اُن کے ہمراہ چل پڑا۔ جب میں چرچ پہنچا تو ساتھ ہی چرچ میں اعلان کیا گیا کہ ایک پاکستانی نوجوان جو لندن سے بار ایٹ لاءکر رہے ہیں ان کا نام مسٹر بشیر احمد مجاہد ہے اور وہ ڈیوسٹ خاندان کے مہمان ہیں۔ وہ بھی چرچ میں آئے ہیں۔ جس پر حاضرین نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیااور خوش آمدید کہا۔ چرچ کی مصروفیات سے فراغت کے بعد جب میں اُن لوگوں کے درمیان وہاں کھڑا تھا توچرچ میں لوگ باری باری آ کر مجھ سے مل رہے تھے اور ہر کوئی مجھے اپنے شہر میں موجود پا کر خوشی اور گرم جوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ چند دنوں کے بعد اسی شہر میں خواتین کا ایک اجتماع مقامی تاریخی ہوٹل میں ہوا جو کہ کوئی اچانک تقریب نہیں تھی بلکہ پہلے سے طے شدہ خواتین کا سالانہ اجتماع تھا جس میں چیف گیسٹ البین کے لارڈ میئر تھے اور مجھے انہوں نے گیسٹ آف آنر کے طور پر سٹیج پر بٹھایا۔ اس کے بعد مجھے تقریر کرنے کے لئے کہا اور مجھے موقع ملا کہ میں پاکستان کے سیاسی ومعاشی حالات کے بارے میں بات کروں۔ میں نے اُنہیں قیام پاکستان کی وجوہات سے آگاہ کیا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اختلافات کا بھی ذکر کیا۔ بعد میں حاضرین میں سے کچھ لوگوں نے پاکستان اور اس کے حالات اور لوگوں کے بارے میں بہت سے سوالات بھی کئے اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اُن میں سے کافی لوگ ایسے تھے جو پاکستان کے محل وقوع تو کیا نام سے بھی ناواقف تھے اور کئی ایک تو یہ ہی سمجھے ہوئے تھے کہ پاکستان انڈیا کا ہی کوئی حصہ ہے اور بہت سے لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ پاکستان دُنیا کے کس حصہ میں واقع ہے اور اس کا محل وقوع کیا ہے.... وغیرہ وغیرہ۔
میں نے محسوس کیا کہ جس طرح ہمارے ملک میں بھی عوام میں سے زیادہ تر لوگ افریقہ، یورپ، مشرق بعید کے ممالک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے اس طرح امریکہ میں بھی عام لوگ پاکستان کے بارے میں ایسے باخبر نہیں ہیں۔ اس کے بعد مجھے مزید چند روز وہاں ٹھہرنا پڑا۔ میرے میزبان خاندان کا اصرار تھا کہ وہ مجھے مزید سیر و تفریح کے مواقع دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دُنیا کی مشہور آبشار جسے ”نیاگرا فالز“ کہا جاتا ہے وہاں لے جانے کا پروگرام بنایا۔ یاد رہے کہ نیاگرا فالز کا کچھ حصہ امریکہ میں ہے اور اس کا غالب حصہ کینیڈا میں ہے۔ امریکہ سے جو سیاح نیاگرا فالز کی سیر کرنے آتے ہیں وہ بڑی آسانی سے کینیڈین حصہ میں بھی چلے جاتے ہیں اور وہاں بھی اپنی من مانی سیر و تفریح کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ ہم نے وہاں بہت خوبصورت ماحول میں بہت اچھا وقت گزارا۔ اس پروگرام کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میزبان خاندان نے میری خاطرداری اور تواضع کے لئے بہت اقدامات کئے انہوں نے مجھے لنچ سیگرم ٹاور (Seagrum Tower) ہوٹل میں کروایا۔ یہ ایک خاص ریسٹورنٹ ہے اور کافی بلندی پر واقع ہے اور ہر وقت گھومتا رہتا ہے۔ اس کے گھومنے کی رفتار اتنی آہستہ ہوتی ہے کہ بیٹھنے والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ یہاں کے ہر طرف کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے نیاگرا فالز کے تمام پہلو اور نظارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے ڈیوسٹ خاندان کی یہ مہمان نوازی ہمیشہ یاد رہے گی۔ میں اپنے عزیز و اقربا اور اپنے بچوں سے ہمیشہ ان کا تذکرہ عزت اور محبت سے کرتا ہوں۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -