عدالتی بندوبست؟

  عدالتی بندوبست؟
  عدالتی بندوبست؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نواز لیگ مخالف حلقوں،خاص طور پر پیپلز پارٹی کے ووٹروں سپورٹروں نے، بغض نواز شریف میں عمران خان کو ووٹ دیا تھا، مگر اپنے سیاسی نابالغ پن کے سبب عمران خان نے اس بغض کو فوج کی جانب موڑ دیا،اس پر طرہ یہ کہ خود فوج کو جنرل فیض حمید ایسا ڈی جی آئی ایس آئی  میسر آگئے جو آرمی چیف بننے کے خبط میں ہر حد کو پھلانگتے چلے گئے۔ ان دو شخصیات کے ساتھ جب عدلیہ اور میڈیا کا گٹھ جوڑ بھی ہوگیا تو چشم فلک نے جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عطا بندیال سمیت کئی ایسے ہیرے دیکھے جو ان شخصیات کی خواہش کی تکمیل میں آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے چلے گئے اور سونے پر سہاگہ میڈیا  وہ طبقہ بن گیا جو جنرل فیض کی کاسہ لیسی میں صحافت کے نام پر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے انہی کو کمک پہنچاتے رہے اور آج پوری قوم اس ابتلا کا شکار ہے جس کے سارے سوتے ان دو شخصیات کی  ہوس اقتدار سے جنم لیتے ہیں۔ 

اب ایک طرف اگر فوج نے دل کڑا کر کے جنرل فیض حمید پر ہاتھ ڈالا ہے تو دوسری جانب حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں عدلیہ میں موجود کمپرومائزڈ ججوں کو نیوٹرل کرنے کا سامان کرنے جا رہی ہیں، اس دوران میڈیا میں موجود بھونپو بھی قابو میں لائے گئے ہیں اور سکریننگ کے عمل میں کل کے کئی نامور نام آج بے نام و نشان ہوئے جاتے ہیں۔ 

دوسری جانب ان دو شخصیات اور ان سے جڑی ہر امید کی ساری امید ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے جڑی ہوئی ہے جنھیں کاملا ہیرس دھول چٹاتی پھر رہی ہیں،اگرچہ اس وقت جو عدالتی بندوبست ہو رہا ہے وہ حفظ ماتقدم کے طور پر بعد از ٹرمپ، اگر وہ جیت گئے تو، صورت حال پر قابو پانے کے لئے ہو رہا ہے لیکن اگر ٹرمپ نہ جیت سکے تو یوں سمجھئے کہ عمران خان کا ملیدہ بن جائے گا جس میں بلاول بھٹو کا پتلا نکل کر دوبارہ سے بغض نواز کے شکار عوامی حلقوں کے دلوں پر راج کرے  گا۔

عمران خان اگر کوتاہ عقل نہ ہوتے تو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد میر جعفر اور میر قاسم کا منترہ پڑھنے کی بجائے چو ر ڈاکو کا منترہ ہی پڑھتے رہتے تو آج ان کی سیاسی پوزیشن کچھ اور ہوتی،پہلے ہی اس چور ڈاکو کے منترہ کی وجہ سے نواز شریف وزیراعظم ہاؤس جانے کی ہمت نہیں کر سکے، مگر جونہی عمران خان نے میر جعفر اور میر قاسم کی تکرار شروع کی اور اپنے فالوئرز کا سارا فوکس نواز شریف سے ہٹا کر آرمی چیف پر لگایا،اس کے بعد ان کی شامت اعمال کا آغاز ہو گیا کیونکہ ریاست پاکستان ایک کمزور فوج افورڈ کر ہی نہیں سکتی،اس لئے اسٹیبلشمنٹ نے بھی جواب میں عمران خان پر فوکس کر لیا اور اس کے باوجود کہ عمران خان کے چاہنے والے دیوانہ وار ان پر جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے،بالآخر انہیں قید خانے میں ڈالنے میں کامیاب ہو ہی گئی،اس دوران جب کبھی ریٹائرڈ افسروں سے بات ہوتی اور پوچھا جاتا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جا رہی،جو ریٹائر ہونے کے باوجود متحرک ہیں اور ادارے کے اندر اور باہر سے بھی انہیں سپورٹ حاصل ہے تو یہ جواب ملتا تھا کہ بھئی جنھوں نے جنرل فیض حمید کو پکڑنا ہے کل کو انہیں بھی تو ریٹائرد ہونا ہے، اس لئے ایسی کسی روائت کا آغاز نہیں ہونا چاہئے کہ جس سے ادارے کے اندر پکڑن پکڑائی کا عمل شروع ہو جائے، مگر دوسری جانب جنرل فیض حمید نڈر اور بیباک صحافی کی طرح ہر حد پار کرتے جا رہے تھے۔ اس کے علاوہ پوری پی ٹی آئی ان سے لائن لینے پر لگی ہوئی تھی،چنانچہ رؤف حسن کی گرفتاری کے بعد سے صورت حال تبدیل ہو گئی اور وہ ٹھوس معلومات اداروں کے ہاتھ لگ گئیں جس کی بنیاد پر جنرل فیض حمید کو گرفتار کر لیا گیا۔ 

نواز شریف نے کامیابی کے ساتھ گزشتہ دو سال سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کیا ہے۔ اب وہ ملکی سیاست میں دوبارہ سے متحرک ہونا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی حریف نے اپنا فوکس ان سے ہٹا کر کہیں اور رکھ لیا ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ سے بھی ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ ان کی سیاسی عزت خاک میں ملانے میں جس جس کا بھی کردار رہا ہے، اس سے اب ادارہ ہی نمٹے کیونکہ انہوں نے تو اپنی تیسری مدت کے دوران ادارے کو چھیڑا تھا نہ چھوڑا تھا مگر ادارے نے انہیں چھیڑنا بھی شروع کردیا اور چھوڑنا بھی!

اب جب ادارے نے 2011ء سے 2022ء تک کی دہائی کا جائزہ لیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اس دوران عمران خان کا سار ا فیض جنرل فیض کی ذات تک محدود ہو گیا اور خود ادارے کی ساکھ پر سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں،چنانچہ ادارے نے بھی عمران خان کو نواز شریف سے بڑا حریف تصور کرلیا ہے،اب اگر انتظار ہے تو امریکی انتخابات کا ہے جس کے بعد پراجیکٹ عمران خان کو تیزی سے سمیٹا جائے گا۔ تدبیر تو یہی لگتی ہے، تقدیر کے ہاتھ میں پاکستانی قوم کے لئے کیا ہے اس کا علم تو اللہ کی ذات کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا، اگر عمران خان اس بحرانی دور سے نکل آتے ہیں تو وہ ایک بدلے ہوئے سیاستدان ہوں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہ سیاست میں نہیں ہوں گے۔ یہی وہ ایک امید ہے جو بلاول بھٹو کو متحرک رکھے ہوئے ہے جو اپنی والدہ کی طرح اب اسٹیبلشمنٹ کو کوسنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے والد کی مفاہمت کی سیاست کا منترہ سیکھ چکے ہیں، وگرنہ اب بھی پیپلز پارٹی چاہے تو عدلیہ کے بندوبست کا نوازلیگی فارمولہ مسترد کرسکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -