ایوب خان کی حکومت کے آخری دن تھے، طلباء بہت پرجوش تھے، بھٹو کی تقریر کا معیار بڑا عالمانہ اور گہری سیاسی فکر تھی
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:24
اس زمانے میں ایوب خان کی حکومت کے آخری دن تھے۔ تمام پاکستانی طلباء و طالبات بہت پرجوش اور سرگرم تھے۔ خصوصاً ہمارے ادارہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بنگالی طلباء بھی۔ جب بھٹو صاحب جلسہ میں آئے تو اُن کی بیگم نصرت بھٹو بھی اُن کے ہمراہ تھیں۔ بھٹو صاحب نے استقبالیہ خطبہ کے بعد خطاب شروع کیا جو نہ صرف پاکستان کے حالات کے مطابق تھا بلکہ اس تقریر کا معیار بھی بڑا عالمانہ اور گہری سیاسی فکر تھی۔ بھٹو کو تعلیمی اداروں اور پڑھے لکھے لوگوں سے خطاب کرنے پر بڑا ملکہ حاصل تھا۔ جس کا انہوں نے اپنی تقریر میں بھرپور مظاہرہ کیا۔ حاضرین نے اُن کی تقریر پر بے حد پسندیدگی کا اظہار کیا۔ دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔
اجلاس میں تقریر کے بعد سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا تو بنگالی طلباء نے بھٹو سے بہت جارحانہ انداز میں تیکھے سوالات کئے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے تحمل اور خوش مزاجی سے اُن کے سوالات کے جوابات دیئے۔ بنگالی طلباء کو مشرقی پاکستان کی پس ماندگی پر تشویش تھی جس پر بھٹو نے تقابل کر کے بتایا کہ انگریز کے دور میں مسلم آبادی کے تمام علاقے پس ماندہ رکھے گئے۔ پاکستان میں جو علاقے زیادہ ترقی یافتہ نظر آتے ہیں ان کی ترقی اور خوشحالی کی وجہ بے انصافی نہیں بلکہ یہ قدیم عرصہ سے اپنے جغرافیائی اور موسمی محل وقوع کی وجہ سے خوشحال ہیں۔ پس ماندہ علاقوں کو فوری طور پر ترقی یافتہ بنانا ممکن نہیں آہستہ آہستہ پورے ملک کی پس ماندگی کو دور کیا جا رہا ہے۔فوجی حکومتوں کی جانب داری کے بارے میں بھٹو نے کہا کہ وہ خود ایک پس ماندہ صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں …… اور انہوں نے فوجی حکومت میں شرکت کے دوران مشرقی پاکستان کی ترقی و بہبود کے جو اقدامات کئے اس کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔
بنگالی طلباء کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بھٹو نے اُنہیں بتایا کہ مشرقی پاکستان کی مقبول لیڈر شپ شیخ مجیب الرحمن اور مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کے ساتھ وہ سیاسی رابطہ میں ہیں اور ان کے علاوہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر لیڈر بھی ان سے ملتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ متعدد بار مشرقی پاکستان کا سیاسی دورہ کر چکے ہیں اور اُن کی پی پی پی کی صوبائی اور ضلعی تنظیمیں بھی مشرقی پاکستان میں متحرک ہیں۔ بھٹو ایک ہوشیار، سمجھ دار اور زمانہ ساز سیاسی لیڈر تھے۔ اُن کی تقریر اور گفتگو نے لندن میں تمام سامعین کوبہت متاثر کیا۔ ہم مغربی پاکستان کے طلباء بھی اُن کی تقریر اور خیالات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ بعد میں بھٹو صاحب سے تفصیلی ملاقات بھی ہوئی۔ انہوں نے میرے ساہیوال سے ہونے کا سن کر کہا کہ ساہیوال میں اُن کی پارٹی بہت مضبوط ہے۔ راؤ ستار اور سردار علیم بھی ان کے ساتھی ہیں۔ بھٹو صاحب نے مجھے تاکید کی کہ میں جب بھی پاکستان پہنچوں تو اُن سے رابطہ کروں۔ بیگم نصرت بھٹو بھی موجود تھیں۔ انہوں نے بھی حاضرین سے بعد میں بات چیت کی۔ خواتین کے سوالات کے جوابات دیئے۔ دونوں میاں بیوی حاضرین میں گھل مل گئے، ہمارے ادارے کی انتظامیہ کے ایک رُکن نے اس اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لنکنزان میں ہونے والے انتہائی عمدہ اور کامیاب اجتماعات میں سے ایک تھا اور بھٹو کی تقریر بہترین تقریر تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔