آج کا مصر ایک بار پھر فرعونوں سے بھرا ہواہے، کل ان کے مقبرے بنیں گے پھر ممیاں، کون جانے کہاں بکیں گی اور کن بھٹیوں میں جلائی جائیں گی
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:1
سفرناموں کی دنیا میں بے دھڑک آمد
سفر ہمیشہ حیرتیں لاتے ہیں اور سفر نامے ان حیرتوں کے پیچھے چھپی رفاقتوں، رقابتوں اور مسکراہٹوں کی تفصیل۔ نہ سفر رکتا ہے نہ سفر نامے، ہر سفر کی وجہ سفر مختلف ہوتی ہے مگر سعید جاوید کا سفر ”اچانک ہاتھ آئی دولت“ کو خرچ کرنے کے لیے کیا جانے والا انوکھا سفر ہے۔ کوئی اور ہوتا تو یہ دولت زندہ لوگوں پر خرچ کرتا مگر اپنی پہلی کتاب ”اچھی گزر گئی“ کی شاندار پذیرائی پر نازاں و فرحاں قلم کار نے اپنی یادوں کی زنبیل سے 30 سال پرانے سفر کی حنوط شدہ ایسی ممی نکالی ہے کہ ماہ و سال کی خبر نہ ہو تو بالکل تازہ جیسی لگے۔
بظاہر معصوم اور بے ضرر لگنے والے سعید جاوید بے دھیانی میں بتا گئے کہ وہ کسی کی محبت میں ریاض سے قاہرہ پہنچے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ پڑھنے والا وجہ، ر اویہ کوسمجھے اور یہ خود کو قلوپطرہ کہہ کر تسلی دیتے ر ہیں، دوران سفر انہیں ہر جگہ فرعونوں سے زیادہ ان کی ملکاؤں اور اُن کی باقیات سے دلچسپی رہی ہے۔ یہ دلچسپی اس قدر شدید رہی ہے کہ میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ اگر کہیں کوئی دوست یا عزیز بیچ میں آ جاتا تو وہ یقینا کھیت رہتا اور سفرنامے کے کئی نئے باب اس کی مداخلت بے جا پر ہونے والی لڑائیوں پر ہوتے، جو ہوتے ہوتے رہ گئیں۔
مصر کے ان کالے پیلے، کٹے پھٹے حکمرانوں کی ”ممیوں“ کی محبت میں یا تو مصر کے وہ لوگ مبتلا ہیں جو ”نحن آل فرعون“ کے نعرے لگاتے ہیں یا پھر ہمارے سعید صاحب ہیں جو ایک ایک ممی کی باقیات کے لیے یوں ترسے ہوئے ہیں کہ ہر مانگنے والے کو دیتے اور ہر لوٹنے والے سے لٹتے نہیں تھکتے۔ یہاں تک کہ مونچھوں والے جبری گائیڈوں کی قیادت میں اہراموں کے بیسیوں فٹ نیچے دبے مقبروں میں بھٹکتے پھرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
ہزار بارہ سو ٹن وزنی دیو ہیکل پتھر کے ستونوں کی تصویریں ہم نے بھی دیکھ رکھی ہیں مگر سعید صاحب نے تو جب تک وہ جگہ نہ تلاش کر لی جہاں انہیں کاٹا، لٹایا اور پھر بنایا گیا تھا، انہیں چین ہی نہیں آیا۔ اسی تلاش میں وہ ا لأقصر سے دو سو کلو میٹر دور اسوان شہر جا پہنچے جہاں اسوان ڈیم کی وجہ سے بننے والی ناصر جھیل میں ڈوبے فرعونی مقبرے بھی انہیں بے چین کرتے رہے۔ حالانکہ ڈوبنے سے پہلے ہی یونیسکو والوں نے کڑی مشقت سے یہ سو سو فٹ اونچے پتھر کے مجسمے کاٹ کاٹ کر سینکڑوں کلو میٹر دور جا کر ایک مصنوعی پہاڑی پر پہنچائے اور جوڑدیئے تھے۔ لیکن سعید صاحب جب تک وہاں نہیں پہنچے اور خود اپنے ہاتھوں سے ملکہ نفر تاری کو چھو کر نہیں دیکھ لیا، شانت نہیں ہوئے۔ مسئلہ چارکروڑ ڈالرکے حساب کا نہیں فرعون رعمسیس ثانی اور ملکہ نفرتاری کے تعلقات کی گہرائی ماپنے کا تھا جو وہ ماپ کر کے ہی رہے، چاہے اس بیچ انہیں اسوان ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے جہاز کے موٹے سٹیورڈ کے ہاتھوں اپنا ریٹرن ٹکٹ گنوانے اور فضاء میں اڑانے کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی ہو۔
مصر اپنے فرعونوں، سست الوجود چیختے لوگوں اور فربہ اندام خواتین سے ہی نہیں، ہوٹلوں اور بحری بجروں میں ہمہ وقت رقصاں بیلے ڈانسر وں سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ ایسی ہی کوئی کم لباس ڈانسر جو معروف بھی ہو اور جس کے پوسٹر جگہ جگہ آویزاں ہوں، لفٹ میں آپ پر مہربان ہونے لگے، گنگنائے اور لہرانے لگے اور ایسے میں ہمارے سعید جاوید سیاح لفٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور بوسیدہ مقبروں میں دفن ہزاروں برس پرانی زنانہ اور مردانہ ممیوں کی تاریخ پڑھنے اور بتانے لگیں کہ تب کے انا پرست حکمران مرنے والے حکمرانوں کے مقبروں کی دیواروں پر کھدی ہوئی ان کی خدمات، خاندان اور تاریخ کو بدلنے کے خبط میں مبتلا تھے اور پھر وہ آپ کو ان دیواروں تک بھی لے جائیں جہاں فی الواقعی مرنے والوں کی خدمات ہی نہیں شجرہ نسب اور ماں کا نام تک کھرچ کر مٹا دیا گیا ہو، تو پڑھنے والے کو حیرت تو ہو گی۔
اس سفرنامے کی خوب صورتی اور دلچسپی اس کا شگفتہ اندازِ بیاں ہی نہیں واقعات کی ندرت بھی ہے اور مصنف کی سادگی اور معصومیت بھی۔ وہ گناہ کا ذکر بھی دو ہاتھ پرے ہو کر کرتے ہیں،ایسے میں دل میں کسی ناہنجار قسم کے خیال کو آنے کا موقع اتنی آسانی سے کیسے دے سکتے تھے۔ وہ اگر بار بار بخشیش مانگنے والے ویٹروں اور ڈرایؤروں کے جبر کا شکار ہوئے تو اپنے گائیڈوں کی بعض اداؤں پر بھی مرمٹے۔
مصر جانے سے قبل کہیں میں ان سے ملا ہوتا یا یہ سفرنامہ پڑھا ہوتا تو سچ جانیں سفر کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔ نہ وہ غلطیاں کرتا جو بے خبری میں ہوئیں نہ وہ جگہیں چھوڑتا جو بے دھیانی میں چھٹ گئیں۔ ہاں، ایسا مکمل ہوم ورک اور نظم و ضبط میں نے زندگی بھر نہیں کیا، ایک سفرنامہ پڑھ کر کیسے تیر ہو جاتا۔
آج کا مصر ایک بار پھر فرعونوں سے بھرا ہواہے۔ کل ان کے مقبرے بنیں گے۔ پھر ممیاں بنیں گی۔ کون جانے کہاں بکیں گی اور کن بھٹیوں میں جلائی جائیں گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر فرعون تاریخ کی دیواروں میں گاڑ دیا جاتا ہے۔ جب کبھی اس عہد کے خو فو کی قبربنے گی تو پھر کوئی سعید جاوید سیاحت پر نکلے گا اور مصریات کا نیا باب لکھے گا۔ تب تک سعید جاوید کو سفرناموں کی دنیا میں ”مصریات“ کا ہاتھ تھامے یوں بے ٹوک چلے آنا مبارک ہو۔ اتنی دلچسپ باتیں اور اتنی اچھی تصویریں کب کسی ایک سفرنامے میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اچھا ہے! اب آتے جاتے رہیے گا۔
اختر عباس، 30 ا گست 2015ء(کہانی کار، سفرنامہ نگار، تربیت کار)
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔