عوام کی قسمت کا فیصلہ!
پاکستان کے عوام گزشتہ پینسٹھ سال سے اپنی بدنصیبی کا رونا روتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی وہ اس کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے ہیں تو کبھی سیاستدانوں پر، کبھی بیورو کریسی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو کبھی عدالتوں کو انصاف مہیا نہ کرنے کے طعنے دئیے جاتے ہیں، لیکن عوام نے کبھی اس امر کا تعین نہیں کیا کہ جب بھی انہیں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کس حد تک شعور اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیا۔ عوام اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا کبھی ووٹ ڈالتے وقت انہوں نے یہ سوچا ہے کہ جس شخصیت کو ان کا ووٹ جا رہا ہے، کیا وہ واقعی اپنے دل میں ملک، اپنے علاقے اور اپنے ووٹروں کا خیال رکھنے والا ہے۔ کیا انہوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ایسے امیدوار، جن کو وہ دس دس مرتبہ منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیج چکے ہیں، ان کی کارکردگی کیا رہی۔ انہوں نے اپنے علاقے میں کتنے ترقیاتی کام کروائے، کتنے سکول بنوائے، کتنے صحت کے مراکز تعمیر کروائے، سڑکیں بنوائیں یا مقامی لوگوں کے مسائل کس حد تک دلچسپی لے کر حل کروائے اگر اس کا جواب مثبت نکلے تو پھر وہ یقیناً اس مرتبہ بھی ووٹ کے حقدار ہیں اور عوام کو کسی دوسرے امیدوار کی جانب دیکھنا بھی نہیں چاہئے۔
دوسری صورت میں عوام کو خود اپنی حالت پر رحم کرنا چاہئے کہ آج عوام کی یہ حالت ہے کہ وہ گھنٹوں لائن میں کھڑے ہو کر سی این جی بھرواتے ہیں، توانائی کا بحران ہے، حکمرانوں سے عوام کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کبھی سستی روٹی کے تندور لگتے ہیں تو کبھی ٹرکوں پر آٹے کے تھیلے تقسیم ہوتے ہیں۔ کیا کبھی عوام نے سوچا ہے کہ ایسا ملک جہاں گندم ہی گندم اُگتی ہے، وہاں آٹے کا بحران کیوں پیدا ہوتا ہے؟ جہاں گنے کی فصل وافر ہے، لیکن چینی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کو یکساں سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ عوام کا معیار زندگی روز بروز پست ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، تو پھر عوام کا فرض بنتا ہے کہ اپنا ووٹ اس امیدوار کو دیں، جس نے موقع ملنے پر ملک کو بالکل نہیں لوٹایا پھر کم سے کم لوٹا ہے اور ووٹ دینے سے پہلے ان امیدواروں سے حلف لیں کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں حلقے کے ترقیاتی فنڈز خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود پر ہی لگائیں گے۔ اس کے لئے محلوں کی سطح پر کمیٹیاں بننی چاہئیں، جو اپنے منتخب نمائندوں اور ان کے ہاتھ لگے ہوئے فنڈز پر نگاہ رکھیں تا کہ اہل علاقہ کے لئے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہو سکیں۔
اگر عوام دو سموسوں، ایک جلیبی اور ایک کپ چائے پر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں گے، تو پھر وہ اچھے دنوں کا انتظار بھی چھوڑ دیں۔ اچھے دن اور اچھا وقت خود اُن کے اپنے اختیار میں ہے۔ آج اگر وہ ذات برادری کے چکر سے باہر نکل کر فیصلے نہیں کریں گے تو وہ اگلے پانچ سال بھی اسی کسمپرسی میں گزاریں گے اور کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ عوام اپنے نمائندوں سے آیت الکرسی بے شک نہ سنیں، لیکن اتنا یقین ضرور کر لیں کہ جس کے ہاتھ میں وہ اپنی زندگی کے آئندہ پانچ برس دینے جا رہے ہیں، وہ دردِ دل رکھنے والا انسان ہے اور اس میں اُن لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ واقعتاً موجود ہے۔
گویا جب تک عوام سٹینڈ نہیں لیں گے اور اپنے اندر صحیح اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے، ان کی حالت بھیڑوں کے اس ریوڑ سے مختلف نہیں ہوگی، جو چرواہے کی ایک للکار پر یا چھڑی لہرانے پر تتر بتر ہو جاتی ہیں۔ عوام کی طاقت متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے میں ہے۔ عوام پر جتنا بھی معاشرتی یا سماجی دباو¿ ہوتا ہے، وہ الیکشن بوتھ سے باہر ہوتا ہے وہ چاہے کسی بھی پارٹی کے کاو¿نٹر سے پرچی حاصل کریں، لیکن جب بوتھ کے اندر جا کر مہر لگانے کا مرحلہ آئے تو بسم اللہ پڑھ کر ایسے امیدوار کے نشان پر مہر لگائیں جسے وہ اپنے ضمیر کے مطابق دیگر امیدواران سے بہتر گردانتے ہوں وگرنہ عوام کی حالت ضمیر جعفری (مرحوم) کے اس شعر سے مختلف نہیں ہوگی:
گرد نے ملتان تک اس طرح گردانا مجھے
میری بیوی نے بڑی مشکل سے پہچانا مجھے