اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا , میں نے اونچے درجے کے تمام سکولوں کو اپنی مجوزہ فہرست سے خارج کر دیا

اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا , میں نے اونچے درجے کے ...
 اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا , میں نے اونچے درجے کے تمام سکولوں کو اپنی مجوزہ فہرست سے خارج کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:74
 عائشہ اب بڑی ہوگئی تھی اور مجھے اس کے لیے مناسب سکول تلاش کرنا تھا۔ میں اپنے بچوں کو مشنری سکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لیے ایسے اونچے درجے کے تمام سکولوں کو میں نے اپنی مجوزہ فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ میں اپنے مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان کو ایک   اچھے نظم و ضبط والے ماحول میں بھیجنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں شہر کے سب اچھے سکولوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بالآخرشادمان کالونی میں واقع کریسنٹ ماڈل سکول کا انتخاب کیا۔ جو ایک ٹرسٹ کے ماتحت کام کرتا ہے یہ ایک خصوصی طور پر اسی مقصد کے لیے تعمیر کی گئی عمارت میں قائم تھا، نہ کہ دوسرے ان گنت سکولوں کی طرح جو کھمبیوں کی طرح رہائشی عمارتوں میں جگہ جگہ اُگ آئے تھے۔ یہاں پانچویں جماعت تک بچے بچیوں کی مخلوط تعلیم تھی لیکن اس کے بعد چھٹی جماعت سے انٹرمیڈیٹ تک یہ سکول صرف لڑکوں کے لیے مخصوص تھا۔ عائشہ نے 1974 میں اور سمعیہ نے1976 میں سکول میں داخلہ لیا۔ ابھی وہ  ابتدائی کلاسوں ہی میں تھیں کہ میں نے ان کے لیے مڈل اور ہائی سکولوں کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا حالانکہ یہ مرحلہ آنے میں ابھی 5سال باقی تھے۔ ان دنوں شادمان کالونی کے انتظامی اُمور میری ذمہ داری تھی۔ مجھے علم تھا کہ وہاں اس سکیم میں ایک خالی قطعہ اراضی بھی تھا۔ میں نے کریسنٹ ماڈل سکول کی انتظامیہ کو مخلص اور ان کی توجہ کو اپنے سکول کے مشن پر مرکوز پایا۔ میں نے ان کو یہ پلاٹ حاصل کرنے پر رضا مند کر لیا اور اس سلسلے میں تمام انتظامی اور کاغذی کارروائی کرکے پلاٹ سکول کے نام کر دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے سکول کے ٹرسٹ کی انتظامیہ کو پلاننگ اور منظوری کے مراحل میں بھی اپنی خدمات پیش کیں۔چنانچہ سارے معاملات میرے دفتر میں میری ہی نگرانی میں مکمل ہوئے۔ اور یوں کریسنٹ گرلز ہائی سکول وجود میں آیا۔ یہ امر میرے لیے باعثِ فخرواطمینان ہے کہ لاہور میں لڑکیوں کے لیے ایک معیاری ہائی سکول قائم کرنے میں میرا بھی کچھ حصہ تھا۔ یہاں کی پہلی پرنسپل مسز خان تھیں جو ہمیشہ اس عظیم درسگاہ کی تعمیر میں مجھے میرے کردار کو سراہتے ہوئے مجھے خراجِ تحسین پیش کیا کرتی تھیں۔
 اگرچہ اس سکول کی الاٹمنٹ اور منظوری میں میری ذاتی دلچسپی بھی شامل تھی لیکن میری بیٹیاں اس سکول میں تعلیم حاصل نہ کر سکیں،کیوں کہ جب وہ اس سکول میں داخلے کی اہل ہوئیں تو ہم سعودی عرب چلے گئے تھے۔ البتہ مدیحہ نے اپنے میٹرک کے امتحان کی تیاری کے سلسلے میں مسز خان کی زیر نگرانی آخری چند مہینے اس سکول میں گزارے تھے، ہر چند مسز خان اب ہماری خاندانی دوست بن گئی تھیں لیکن مدیحہ اب بھی ان کے سخت نظم و ضبط کی وجہ سے خوفزدہ رہتی تھی۔ 
ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے میرا کافی وقت سفر میں گزرتا تھا کیوں کہ مجھے مختلف علاقوں کی مقامی انتظامیہ کے علاوہ اپنے ادارے کے ریجنل ڈائریکٹروں سے میٹنگ کرنے کے علاوہ جاری اور مستقبل کے منصوبوں کے زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے متعلقہ جگہ بھی دیکھنے جانا ہوتا تھا۔ میرے تمام ڈائریکٹر صاحبان مجھ سے اس لحاظ سے سینئر تھے کہ ان کی مدت ملازمت مجھ سے کہیں زیادہ تھی اس لیے مجھے ان کے ساتھ بہت محتاط رویہ رکھنا پڑتا تھا۔ میں ایک طرف اگر کام میں کوتاہی پر ان کی سرزنش کرتا تھا تو دوسری طرف ان کے اور وہاں کے مقامی بااثر لوگوں کے بیچ میں ڈھال بن کر کھڑا ہو جاتا تھا اور ان کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیاکرتا تھا۔ وہ سب میرے اس روئیے سے بہت خوش اور مطمئن تھے اور میرا احترام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک انجینئر چغتائی تھا جو ڈائریکٹروں حتیٰ کہ وہ ملازمت میں بھی مجھ سے کم از کم20 سال سینئر تھا، میں نے اس کی تعیناتی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی حیثیت سے کردی تھی۔ وہ ایک شریف، ایماندار اور وقت کی پابندی کرنے والا افسر تھا۔ لیکن وہ سارا دن ایک دھیلے کا کام بھی نہیں کرتا تھا اور بس فائلیں بغل میں دبائے ادھر سے ادھر کرتا رہتا تھا۔ ایسی ایمانداری، شرافت اور پابندی وقت کا بھلا کیا فائدہ جب کہ حاصل وصول کچھ نظر نہ آئے۔ 6 مہینے بطور ڈائریکٹر جنرل کام کرنے کے بعد میں نے ان جیسے کرداروں سے ایک انتہائی تکلیف دہ سبق سیکھا کہ بغیر کسی قابلیت یا کسی کام کی تخلیق کے، صرف ایما نداری کا ڈھنڈورا پیٹنے سے کہیں بہتر وہ انسان ہے جو محدود سی بددیانتی تو کرتا ہے لیکن اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ادارے کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ میرے اس مشاہدے نے آگے چل کر پاکستان کی حد تک میرے لیے ادارہ جاتی افسروں کو ذمہ داریوں کی مناسب تفویض کا کام آسان کر دیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -