قلعہ بلتیت با لکل کھنڈر تھا، ہوا سے اس کے در و دیوار لرزتے تھے اور درودیوار دیکھ کر سیاح لرزتے تھے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:161
میر غضنفرصا حب کو بہت شکایتیں تھیں جو سرا سر جائز تھیں(تب تک میر صا حب گورنر گلگت بلتستان نہیں ہوئے تھے۔ پھر پتا نہیں ان شکایتوں کا کیا ہوا؟)۔ سب سے اہم شکایت تو یہی تھی کہ حکومت اس خطے کے لوگوں کو عام پاکستانیوں کے برابر حقوق نہیں دیتی ۔
ہم کافی دیر تک بیٹھے مقا می حالات اور مختلف مو ضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ وہ ایک شائستہ اور قابل آدمی تھے ان کی ذات کو وہ کلف نہیں لگا ہواتھا جو دولت یا عہدے کے بعد لوگوں میں ایک واہیات قسم کی اینٹھن اور اکڑاؤ پیدا کردیتا ہے۔ واپسی پر میر صا حب ہمیں رخصت کرنے باہر با غیچے تک آئے۔
پروگرام تھا کہ قلعہ بلتیت چلا جائے سو اسی طرف چل دئیے۔اس قلعے کو میں نے کئی حالتوں میں دیکھا ہے۔کبھی یہ قلعہ با لکل کھنڈر تھا۔ ہوا سے اس کے در و دیوار لرزتے تھے اور درودیوار دیکھ کر سیاح لرزتے تھے۔ اسے دیکھ کر ” پِک وِک پیپرز“ کا جملہ یاد آ تا تھا:
"Frowning walls - tottering arches - dark nooks - crumbling staircases...." (Charles Dickens)
پھر میر غضنفر علی نے1990 میں یہ قلعہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن (Heritage Faoundation) کے حوالے کردیا جس نے اسے پرانی صورت پر بحال کر کے اسے دوبارہ سیاحوں کےلیے کھول دیا اور اب نہ صرف قلعہ بلتیت بلکہ اس علاقے کے دوسرے قلعے مثلاً قلعہ التیت، قلعہ گنیش وغیرہ بھی اپنی اصل صورت سے بھی بہتر شکل میں بحال ہو چکے ہیں کیو نکہ پرانے زمانے میں ان میں بجلی، پانی کا ایسا عمدہ انتظام کاہے کو ہوتاہو گا؟
بلتیت ہیری ٹیج کے مینیجر حور شاہ صا حب نے قلعہ دکھانے کی ذمہ داری خود سنبھالی۔ حور شاہ صا حب ہنزہ کے روایتی لوگوں کی طرح دھیمے اور شائستہ آ دمی تھے۔شمالی علاقہ جات کے تمام قلعے Cator and Cribbage طرز ِ تعمیر کے مطابق بنے ہوئے ہیں۔ دیواروں میں مخصوص فا صلے پر شہ تیروں کے ساتھ پتھروں اور مٹی کی چنائی۔اس طرز تعمیر کا فائدہ یہ ہے کہ عمارت زلزلے کے اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔قلعے کے اندر دیواروں پر کہیں کہیںآلات نصب تھے جنہیں Tell-Tale (مخبر)کہتے ہیں۔ ان کی مدد سے دیواروں میں آنے والے جھکاؤ، رخنوں اور دراڑوں کا بروقت پتا چل جاتا ہے۔ ایک کمرے میں ہنزہ کی تاریخ سے آگاہی کےلیے بصری سہولت بھی مہیا تھی۔ پروجیکٹر کی مدد سے پردے پر ابھرنے والی تصویریں نا ظرین کو کچھ دیر کےلیے حال سے دور ما ضی میں لے جاتی ہیں۔
تبریز سے سیہون تک
قلعے کے غار نماءکتب خانے تک جانے کےلیے ایک چھو ٹے سے دروازے سے سر نگوں گزرنا پڑا۔ کتابوں کی کئی الماریاں تر تیب سے رکھی تھیں۔ شاہ صا حب نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ حافظ شیرازی، سعدی، عطّار، سنائی ، بوعلی سینا اور ابن ِ رشد سے لے کر مولا نا روم تک سب ہی نامور سائنس دان، فلسفی اور صوفیا ءاس دور کے نامساعد سیاسی حالات کی بناءپر اپنا مذہب ظا ہر نہیں کر تے تھے۔( شمشال کے راستے میں زیارت شمس تبریز پر میں نے وعدہ کیا تھا کہ شمس تبریز پر باقی بات بلتیت پہنچ کر کریں گے تو عرض یہ ہے کہ حور شاہ صاحب کی بات نے میرا مولانا روم اور ان کے مرشد کی ذات کے متعلق تجسس بڑھا دیا اور میں خصوصاً شمس تبریز کی شخصیت کو تاریخی حوالوں میں کھوجنے لگا۔ بعض روایات کے مطابق شمس تبریز کے نام سے جتنی مدح جلال الدین محمد بلخی (1207-1273)، جنھیں ہم آپ مولانا روم اور رومی کے نام سے جانتے ہیں،کی شاعری میں ملتی ہے وہ دراصل شمس الدین محمدکی ہے۔قلعہ الموت کے سقوط سے پہلے قلعے کے آخری حکمران رکن الدین خور شاہ (متوفیٰ 1256 )کے بڑے بیٹے آذر بائیجان چلے گئے تھے اور تبریز شہر میں اپنی شناخت کو ”مستور“ رکھتے ہوئے زر دوزی یا کشیدہ کاری کا کام کرتے رہے اور ایران اور تبریز میں اپنے مذہب کی اشاعت و ترویج کی اور اسی نسبت سے تبریزی کہلائے۔ شاعر نزاری کوہستانی نے انھیں شمس الدین شاہ نیم روز علی اور شاہ شمس کہا۔ کچھ نے انھیں شمس زردوزی کے نام سے بھی پکارا۔ اس دور ِ ابتلاءمیں اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنا عام تھا اور آئمہ¿ کرام ، مبارک ، میمون اور سعید وغیرہ کے القاب سے پکارے جاتے تھے جس کی وجہ سے دشمنوں اور عام لوگوں کےلئے امام کی شناخت ممکن نہیں رہتی تھی۔ اسی اخفاءکی وجہ سے ان کے پیروکار جلال الدین رومی نے انہیں اصل نام سے پکارنے کے بجائے شمس تبریز کا لقب دیااور ”مثنوی“ (آغاز 1258 تکمیل1273) ، جسے ہست قرآں در زبان ِ پہلوی( فارسی زبان میں قرآن) کہا جاتا ہے، اور ” دیوان ِ شمس تبریزی“ جیسی لافانی تخلیقات سے اس محبت اور عقیدت کو ابدی اور عالم گیر بنا دیا۔ مثنوی آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی چندکتابوں میں سے ایک ہے ۔ مولانا کی شاعری جسم اور شمس الدین محمد تبریزی کا عشق اس کی روح ہے ۔چونکہ مولانا روم نے ان کی حقیقی شناخت کو پوشیدہ رکھا اس لیے شمس تبریزی کی ابتدائی اور آخری زندگی پر بھی اسرار کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔