اُردو کے بارے میں قائد اعظمؒ کا اعلان۔۔۔تاریخی حقائق

اُردو کے بارے میں قائد اعظمؒ کا اعلان۔۔۔تاریخی حقائق
 اُردو کے بارے میں قائد اعظمؒ کا اعلان۔۔۔تاریخی حقائق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد خود قائداعظمؒ نے اُس وقت رکھ دی تھی،جب انہوں نے مارچ 1948ء میں ڈھاکہ کے رمنا پارک میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہو گی؟۔۔۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ سوال ہے، جو اِس لئے پیدا ہوا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اصل وجہ کو نظروں سے اُوجھل رکھنے کے لئے تقریباً نصف صدی سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان کی وجہ سے مس انفارمیشن کی بہتات کے علاوہ سیلف سنسر شپ کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ وہ افراد بھی جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے بجائے قربانی کے بکرے تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اِس کاوش میں انہوں نے قائد اعظمؒ کو بھی نہیں بخشا۔ ان مصلحت پسند مفکرین کی ذہنی آسودگی کے لئے اگر ان کا مفروضہ ایک لمحے کے لئے درست بھی مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پر یہ انکشاف کئی دہائیوں کے بعد کیوں ہوا اور اُس وقت وہ کہاں تھے جب یہ مفروضہ سامنے آیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام ہندوؤں کے زیر اثر ہیں، جن کا مشرقی پاکستان میں آبادی کا تناسب تقریباً 20 فیصد ہے اور یہ کہ وہاں اساتذہ کی بڑی تعداد ہندوؤں پر مشتمل ہے، جو نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے۔ ان دِنوں یہ مفروضہ مغربی پاکستان میں بہت مقبول ہوا تھا اور ظاہری عوامل کی بنا پر ایسی سوچ کو اِس لئے بھی پذیرائی ملی تھی کہ بنگالی زبان کا رسم الخط ہندی زبان سے ملتا جلتا تھا اور بنگالی خواتین ساڑھیاں پہنتی تھیں،جو ہندو خواتین کا لباس سمجھا جاتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں اس سوچ کو فروغ دینے والے وہ لوگ تھے،جو اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں انگریزی رسم الخط بھی غیر اسلامی نہیں لگتا تھا۔ ان تنگ نظر افراد کو بنگالی عورتوں کی ساڑھیاں تو نظر آتی تھیں، لیکن ہر دوسرے بنگالی کی داڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی اور نہ ہی مسجدوں کے شہر ڈھاکہ کی سات سو مسجدیں ان کے لئے کوئی اہمیت رکھتی تھیں۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں تھا کہ 1946ء میں کلکتہ کے بعد سب سے ہولناک فسادات مشرقی پاکستان میں چٹاگانگ اور نواکھالی میں ہوئے تھے، جن کے دوران ہندوؤں کے مکانوں، دکانوں اور مندروں پر حملوں کے سبب سینکڑوں ہندو مارے گئے تھے۔

فسادات کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے سلسلے میں مہاتما گاندھی کو خود نواکھالی جانا پڑا تھا۔ محدود بصارت کے حامل یہ افراد بھول گئے تھے کہ مشرقی پاکستان کے عوام ہی تحریک آزادی میں سب سے آگے تھے، بلکہ مسلم لیگ کی بنیاد ہی 1906ء میں ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی۔


یہ اور ایسے کئی دیگر حقائق اپنی جگہ اٹل،لیکن اس کے باوجود اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ پانے کی مجبوری کے باعث مغربی پاکستان میں بنگالیوں پر ہندو ثقافت کے اثرات کا مفروضہ غالب رہا جو بالآخر فوجی آپریشن پر منتج ہوا۔اس موقع پر ہندوستان نے ہماری حماقتوں سے فائدہ اٹھایا اور روس کی مدد سے پاکستان کو دو نیم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس وقت تک بھی کسی کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ قائداعظمؒ نے چونکہ اُردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اِس لئے پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس وقت موقع محل کے مطابق ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا مفروضہ سامنے لایا گیا، کیونکہ اس سے جہاں ایک طرف حقائق سے دھیان بٹایا جا سکتا تھا، وہاں بھٹو صاحب کو بھی پھانسی کے گھاٹ تک لے جانے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔

’’اُدھر تم اور اِدھرہم‘‘ کا نعرہ تو بہت مقبول ہوا، لیکن بہت کم لوگوں کو اِس بات کا علم ہو گا کہ صحافت میں بینر ہیڈ لائن، یعنی ’’نعرہ سرخیوں‘‘ کا رجحان متعارف کروانے والے ممتاز شاعر اور صحافی عباس اطہر(مرحوم) ،جنہوں نے اس وقت روزنامہ ’’آزاد‘‘ کے نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے یہ سرخی لگائی تھی، اپنے بیانات اور مضامین کے ذریعے یہ وضاحت کرتے کرتے دُنیا سے گزر گئے کہ اس سرخی کا ہر گز وہ مطلب نہیں تھا، جو نکالا گیا۔ ان کے مطابق بھٹو صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ اگر ’’اُدھر تم ہو تو اِدھر ہم بھی ہیں‘‘۔۔۔ انہی الفاظ کو مختصر کر کے شاعرانہ انداز میں ’’نعرہ سرخی‘‘ کی شکل دی گئی ہے ’’جسے روکو مت جانے دو‘‘کی طرح اپنے مطلب کے لئے استعمال کر لیا گیا۔

عباس اطہر مرحوم نے اپنی بات پر زور دینے کے لئے ایک کتاب بھی لکھی، لیکن کسی نے اُن کی ایک نہ سنی۔ سنی تو معروف صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر محمد عظیم(مرحوم) کی بھی نہیں گئی، جو اُن دِنوں روزنامہ ’’آزاد‘‘ سے وابستہ تھے۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ روزنامہ ’’آزاد‘‘ شیخ مجیب کا حامی روسی لابی کا اخبار تھا اس لحاظ سے ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ شیخ مجیب کی لائن تھی، جو بھٹو صاحب کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ بہرحال جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھول چھٹنا شروع ہوئی اور حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا بھی ذکر سنائی دینے لگا،جس کا وہ حصہ،جو کانفیڈنشل نہیں تھا، پرویز مشرف نے شائع بھی کر دیا تو دھیان بٹانے کے لئے اس قسم کے نئے مفروضے سامنے آنے لگے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں سے معاشی طور پر ناانصافیاں ہوئی تھیں،اِس لئے وہ الگ ہو گئے یا بنگالیوں کو کیونکہ حقیر سمجھا جاتا تھا،اِس لئے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عوامل بھی مشرقی پاکستان کے عوام میں بے چینی کا سبب تھے،لیکن ان کے دِل پھر جانے کی وجہ کوئی اور نہیں،بلکہ اقتدار میں شرکت سے محرومی کا احساس تھا، جس کی آخری امید قومی اسمبلی کا وہ اجلاس تھا، جو اگلی تاریخ دئے بغیر ملتوی کردیا گیا اور جب دوبارہ تاریخ دی گئی تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔


مشرقی پاکستان کے عوام نے اس حقیقت کو کھلے دِل سے قبول کر لیا تھا کہ وہ گو نا گوں وجوہات کے سبب، جن میں انگریزوں کے خلاف جنگ کے نتیجے میں زیر عتاب آنا بھی شامل تھا، وہ صنعت و حرمت، معیشت، انتظامی امور اور فوج میں شمولیت سمیت ہر شعبے میں پیچھے رہ گئے ہیں اور ان معاملات میں کسی صورت بھی مغربی پاکستان کی برابری میں نہیں آ سکتے، لیکن بہرحال وہ انہی وجوہات کے سبب تحریک آزادی میں پیش پیش رہے تھے، جس کے دوران انہیں اعلیٰ درجے کی سیاسی قیادت میسر آئی تھی،جس کے ذریعے وہ مغربی پاکستان کے ساتھ سیاسی اقتدار میں بھرپور طریقے سے شریک ہو سکتے تھے،جو صرف جمہوری عمل کے ذریعے ممکن تھا۔یہ عمل جب تک جاری رہا، معاملات خوش اسلوبی سے سر انجام پاتے رہے،لیکن جب جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا تو جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔


جہاں تک اُردو کو قومی زبان بنائے جانے کا تعلق ہے، اِس سلسلے میں قائداعظمؒ کے اعلان کو تحریک پاکستان کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، جس کے دوران اُردو، جو ہندوستان میں مختلف زبانیں بولنے والے مسلمانوں کی مذہبی زبان تھی، اُن کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر اُبھری تھی۔ خود مشرقی پاکستان کے عوام کی مذہبی زبان بھی اُردو ہی تھی۔انہی عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ اردو جو دس کروڑ مسلمانوں میں پروان چڑھی ہے، اپنے اندر اسلامی ثقافت کے بہترین پہلوؤں کو سموئے ہوئے ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کی ایک زبان کے بغیر کوئی قوم آپس میں بندھی نہیں رہ سکتی اور نہ ہی مل کر کام کر سکتی ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ زبان کے اِس پہلو کے بارے میں جس سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہو سکتی تھی، قائداعظمؒ نے خاص طور پر وضاحت کرتے ہوئے یہ فیصلہ مشرقی پاکستان (اس وقت مشرقی بنگال) کی حکومت پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ انتظامی معاملات چلانے، تعلیم اور عدالتوں کے لئے جس زبان کا چاہے انتخاب کر لے۔ (قائداعظمؒ کے بعد اس پہلو کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا اور مغربی پاکستان میں اُردو کے بطور قومی زبان نفاذ کے وقت کسی صوبے کو یہ اختیار نہیں دیا گیا، جس سے سندھ کے عوام بُری طرح متاثر ہوئے،کیونکہ قیام پاکستان کے وقت ان کے انتظامی معاملات چلانے، تعلیم اور عدالتوں کی زبان سندھی تھی)۔


قائداعظم کی جانب سے اُردو کو قومی زبان بنائے جانے کے اعلان پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر ابوالکاشم اور خود مسلم لیگ کے رہنما اے کے فضل الحق نے نکتہ چینی کی تھی، لیکن وقت گزرنے پر یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ دوبارہ یہ مسئلہ چار سال بعد اس وقت اُٹھا، جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے، جن کا تعلق مشرقی پاکستان ہی سے تھا، قائداعظم کے موقف کا اعادہ کیا۔ اس سلسلے میں طلبہ کے ایک احتجاجی جلوس پر جب 21 فروری 1952ء کوگولی چل گئی تو احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

بہرحال کیونکہ جمہوری عمل جاری تھا، اِس لئے آئندہ چار سال کے دوران یہ معاملہ باہمی گفت و شنید کے ذریعے طے کر لیا گیا اور26 فروری1956ء کو جب آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے پہلے آئین کا اعلان کیا تو اس میں بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے بارے میں کتاب کے مصنف، سیاست اور تاریخ کے امریکی پروفیسر ایمریٹس کریگ بیکسٹر نے اُردو کو قومی زبان قرار دینے کے بارے میں قائداعظمؒ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض جگہ قائداعظمؒ سے منسوب یہ بیان کہ ’’اُردو اور صرف اُردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہو گی‘‘ درست نہیں،یعنی یہ کہ بنگلہ زبان کو قومی زبان قرار دینا قائداعظمؒ کے فرمان کی خلاف ورزی نہیں تھی۔یہ اور بات ہے کہ ستر سال بعد بھی خود اُردو بھی قومی زبان ہی رہی اور سرکاری زبان نہ بن سکی۔

ایسا کیوں ہوا اس کے لئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہو گی،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُردو نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان، جن میں سے یہ کسی کی بھی زبان نہیں تھی، رابطے کا اہم کردار ادا کیا ہے اور آج یہ نہ صرف پاکستان کی سیاسی زبان ہے، بلکہ میڈیا کی زبان بھی یہی ہے، جس کے ذریعے وزیرستان سے لے کر کراچی تک ہر زبان بولنے والے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ذریعہ تعلیم بھی اُردو ہونے کے باعث پورے ملک میں پڑھے لکھے لوگ اب اُردو ہی بولتے ہیں، لیکن ٹی وی ڈراموں نے اُردو کے معاملے میں تعلیم بالغاں کا جو کرشماتی کردار ادا کیا ہے، اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُردو اب بنگلہ دیش میں بھی مقبول ہو رہی ہے، جہاں پاکستان کے ٹی وی ڈرامے بڑے شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ اُردو کے بارے میں قائداعظم کے موقف کی حمایت میں اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟

مزید :

رائے -کالم -