نوازشریف پاکستان کے مہاتیر محمد بننے جا رہے ہیں؟

      نوازشریف پاکستان کے مہاتیر محمد بننے جا رہے ہیں؟
      نوازشریف پاکستان کے مہاتیر محمد بننے جا رہے ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  محمد نوازشریف نے بڑے اعتماد اور وقار کے ساتھ قوم سے خطاب فرمایا انہوں نے ماضی کو بھی پکارا۔ دشمنوں کو للکارا بھی اور عوام کو بھی درخواست کی،گو انہوں نے دشمنوں کو معاف کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن کیونکہ وہ ایک سرمایہ کاری اور سرمایہ دار بھی ہیں،کاروباری بھی ہیں،اس لئے ان سے حساب و کتاب لینے کا اعلان بھی کیا بلکہ انہوں نے عوام کو بھی حساب لینے کے لئے کہا۔ ظاہر ہے عوام ایسے لوگوں سے ان کے پہلے چانٹوں سے اپنے ووٹ کے ذریعے حساب کتاب لیں گے۔ فروری 2024ء میں جب ووٹ ڈالنے کا وقت آئے گا تو ایسے لوگوں کو حساب دینا پڑے گا جنہوں نے نوازشریف کی چلتی پھرتی، پھلتی پھولتی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے سائیکل سے لے کر کرین تک چلا ڈالی اور ملک کو ایک ایسے معاشی و سماجی بحران میں مبتلا کر دیا جس سے عوام کی چیخیں نکل گئیں اور عوام ہنوز اس کے منفی اثرات تلے دبے ہوئے ہیں۔

اس میں ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا گیا۔ لیاقت علی خان سے لے کر حسین شہید سہروری اور چودھری محمد علی تک شیخ مجیب الرحمن سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو تک کسی منتخب اور عوام میں مقبول سیاستدان کو پنپنے نہیں دیا گیا، مقتدر قوتوں کے ایسے ہی رویوں کا شکار نوازشریف اس کی حالیہ مثال ہیں انہیں تین بار اقتدار سے الگ کیا گیا اور پروپیگنڈہ یہ کیا گیا کہ وہ مقتدر قوتوں کے ساتھ نبھاہ نہیں کر سکے۔دیکھنے سوچنے کی بات ہے کیا نبھاہ مقتدر قوتوں کو عوامی امنگوں کے ترجمان سیاستدان کے ساتھ کرنا چاہیے تھا یا منتخب عوامی قیادت کو حقیقت میں ماتحت قوتوں کے ساتھ نبھاہ کی کاوشیں کرنا چاہئیں تھیں مقتدر حلقوں،فی الاصل ماتحت مقتدر قوتوں کی ایسی ہی من مانیوں کے باعث ہمارے ہاں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی۔ ملک تعمیر و ترقی کے وہ اہداف حاصل نہیں کر سکا جو اسے کرنا چاہئیں تھے۔ ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ ملک دہشت گردی کا شکار ہوا۔ سفارتی تنہائی اس کا مقدر بنی۔ غربت میں اضافہ ہوا، آج ملک میں پائی جانے والی معاشی، معاشرتی اور سماجی ابتری ایسی ہی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ہم نہ تو حقیقی جمہوری مملکت بن سکے ہیں اور نہ ہی فوجی ریاست۔ ہمیں نہ توجمہوریت کے ثمرات سمیٹنے کا موقع ملا اور نہ ہی ڈکٹیٹرشپ کے فوائد (اگر ہوتے ہیں) حاصل ہوسکے۔ آج  ہم اقوام عالم میں ایک بھکاری اور قرض پر چلنے والی محکوم قوم کے طور پرپہچانے جاتے ہیں۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کو نچلے درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔

قارئین کے ذہن میں سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ میں نے عمران خان اور اس کی جماعت کا ذکر کیوں نہیں کیا تو عرض ہے کہ عمران خان تو ایک تخریب کار کے طور پراپنا مقدر طے کرچکے ہیں وہ ایک انارکسٹ کے طور پر ابھرے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر، نظام ریاست کے خلاف ایک بڑی تعداد کو ریاست پر حملہ آور کرا دیا۔ آج وہ ایسے ہی کاموں کا خمیازہ بھگتنے کے لئے پابندی سلاسل ہیں۔ میرے خیال میں ایسے تخریب کاروں کا اور ان کی جماعت کا قومی سیاست میں کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی قومی سیاست کے کوڑا دان کا حصہ بننے جا رہی ہے۔ ہماری عدلیہ ان کے سابقہ اور ریاست ان کے حالیہ رویوں کو گہری نظروں سے جانچ رہی ہے اور جلد ہی انہیں کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے گا۔

بات ہو رہی تھی نوازشریف کی، ان کی حالیہ تقریر کی اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تین بار منتخب وزیراعظم بننے کا ریکارڈ انہی کے نام ہے لیکن تینوں مرتبہ اپنی معیاد پوری نہ کرنے کا ریکارڈ بھی انہی سے وابستہ ہے۔ نوازشریف تیسری مرتبہ جس انداز میں صرف اقتدار سے ہی الگ نہیں کئے گئے بلکہ ذلیل و خوار کئے گئے وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک عجب باب ہے اس باب کی طرف نوازشریف نے اشارہ کرتے ہوئے انتقام نہیں بلکہ حساب و کتاب کرنے کا اعلان کیا ہے ویسے انتقام اور حساب و کتاب بادی النظر میں دو مختلف کیفیات کے مظاہر ہیں لیکن آخر کار ان دونوں کا مطلب ایک جیسا ہی ہے لیکن نوازشریف نے حساب و کتاب کے لئے عوام کو ووٹ کے ذریعے یہ سب کچھ کرنے کی اپیل کرکے بات واضح کر دی ہے کہ وہ انتخابات کے ذریعے،عوام کے ووٹوں کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا حساب وکتاب لیں گے، انہوں نے عوام کی حالیہ مشکلات اور ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے الیکشن 2024ء کو تبدیلی کا ایک اہم موڑ قرار دیا ہے۔

قارئین!پاکستان آج جن سماجی، سیاسی اور معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے وہ شدید اور سنجیدہ نوعیت کی ہیں انہیں حل کرنا اور ملک کو بیک ٹوٹریک لے کر آنا کوئی آسان کام نہیں ہے اکیلے نوازشریف اور ان کی پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اجتماعی دانش اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ نوازشریف وقت کی اس اہم پکار کو سن بھی رہے ہیں او راس کے مطابق سیاسی لائحہ عمل ترتیب بھی دے رہے ہیں۔وہ مختلف سیاسی دھڑوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت بھی کررہے ہیں۔ اشتراک عمل کے لئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کررہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ قد آور سیاسی شخصیات سے مل بھی رہے ہیں اور مفاہمتی سیاسی ماحول کی تشکیل بڑے ذمہ دارانہ انداز میں کررہے ہیں۔ وہ پارٹی معاملات کو بھی احسن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ امیدواروں کے انٹرویوز بھی ہو رہے ہیں تاکہ ٹکٹوں کا فیصلہ کیا جا سکے۔ مئی 22میں شہبازشریف کی قیادت میں پی ڈی ایم اور پی پی پی اتحادی حکومت کے دوررس فیصلوں کے عوامی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا ازالہ کرنا بھی نوازشریف کے ذمے ہے کیونکہ پیپلزپاڑٹی اس اتحادی حکومت کے فیصلوں کے منفی اثرات / نتائج کا ذمہ لینے سے انکاری ہو چکی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس دور اقتدار کو پیپلزپارٹی نے بھی جی بھر کر انجوائے کیا تھا۔ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بننے کی نیٹ پریکٹس بھی کرائی تھی اور انہیں سفارتی محاذ پر اپنا امیج بنانے کا موقع بھی ملا تھا لیکن جب اقتدار کے نتائج بھگتنے کی باری آئی تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے۔ بہرحال نوازشریف بڑے فوکس انداز میں حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے،وقت کے تقاضوں کا احاطہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کو پر عزم انداز میں مشکلات سے نکلانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ نوازشرپف پہلے بھی پاکستانی تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش ثبت کر چکے ہیں اور انہیں قدرت نے ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی قیادت کریں مشکلات میں گھری قوم کو پستی سے نکالیں اور مستقبل کی شاہراہ پر گامزن کریں۔ اگر وہ حسبِ ماضی ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تاریخ انہیں پاکستان کے مہاتیر محمد کے طور پر یاد رکھے گی۔

مزید :

رائے -کالم -