پُرتشدد احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے حویلیاں میں پانی سپلائی کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ اگلی دفعہ وہ پُرامن والی بات نہیں کریں گے،اسلحہ لے کر نکلیں گے اور دکھائیں گے کہ کس میں کتنا دم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج اُن کا مقابلہ فسطائیت اور فرعونیت سے ہے، جس نے پاکستان کے آئین، قانون، اخلاقیات اور انسانیت کو روند رکھا ہے۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ وقتی طاقت اور اختیار سے نظریے، حقیقی آزادی اور جنون کو دبانے والے فرعون کا انجام پڑھ لیں۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 24 نومبر کو اُس کی طرف سے دی جانے والی فائنل کال کے جواب میں جو مظاہرین اسلام آباد پہنچے تھے اُن پر حکومت کی طرف سے گولیاں چلائی گئیں اور سینکڑوں افراد شہید ہو گئے، شہادتوں کے حوالے سے متضاد اعداد و شمار زیر بحث ہیں،پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بیرسٹر گوہر نے اگرچہ 12کارکنوں کی شہادت کا اعلان کیا لیکن اِس حوالے سے کوئی واضح ثبوت تاحال سامنے نہیں لاسکے۔حکومت اِس بات سے انکاری ہے جس کی وجہ سے علی امین گنڈا پور نے وزراء کو بھی آڑے ہاتھ لیا،اُن کا کہنا تھا کہ یہ نہتے لوگوں پر گولیاں برسانے کا دفاع کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کوئی شہید نہیں ہوا، کوئی گولی نہیں چلی اور کبھی کہتے ہیں کہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔ علی امین گنڈا پور نے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان سے استدعا بھی کر دی کہ وہ پُرامن رہنے کا راگ چھوڑ دیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (کے پی) کے اِس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا ء تارڑ نے کہا کہ غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کے ساتھ مسلح احتجاج پی ٹی آئی کا وتیرہ ہے، اِس نے پہلے بھی مسلح جتھوں کے ساتھ وفاق پر لشکرکشی کی تھی، علی امین گنڈاپور کے گارڈز کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا گیا، یہ لاشیں گرا کر اُن پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔چند روز قبل بھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ اُن کے لوگ لاپتہ ہیں، خدشہ ہے انہیں شہید کیا جا چکا ہے، اِس سلسلے میں انہوں نے حکومت سے جواب بھی مانگا ہے، گزشتہ روز پشاور کے پارک میں ”شہداء اجتماع“ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ علی امین گنڈاپورمسلسل اپنے روایتی جارحانہ انداز میں گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں، حکومت کو للکار رہے ہیں، صوبوں میں نفرت پھیلانے کی سازش کی بات کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو احتجاج کی فائنل کال دی، وہ اپنے بانی کی رہائی چاہتے تھے،حکومت نے دو دن پہلے ہی لاہور، اسلام آباد سمیت دوسرے بڑے شہروں کے داخلی و خارجی راستے بند کر دئیے، کاروبارِ زندگی متاثر ہوا، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور بھاری معاشی نقصان بھی ہوا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا تو بشریٰ بی بی کے ہمراہ اسلام آباد میں مستقل ڈیرہ ڈالنے کے لئے نکلے تھے،وہ تمام تر رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے، حکومت نے اُنہیں سنگجانی پر احتجاج کرنے کی پیشکش کی جس کے بارے میں اُس وقت یہ اطلاعات بھی آئیں کہ عمران خان بھی اِس پر تیار تھے تاہم بشریٰ بی بی نے اِس سے اتفاق نہیں کیا، وہ ہر صورت ڈی چوک ہی پہنچنا چاہتی تھیں۔ بشریٰ بی بی اور علی امین نے تو بعدازاں مانسہرہ کا رُخ کر لیا لیکن بعض کارکن ڈی چوک کے قریب ہی رہ گئے۔ حکومت نے وہاں آپریشن کیا جس میں پی ٹی آئی کے مطابق سینکڑوں کارکن شہید ہو گئے،چند دن بعد کہا گیا کہ 12کارکن شہید ہوئے ہیں جن کے نام تو بتائے گئے ہیں لیکن مکمل تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں۔ حکومتی موقف ہے کہ احتجاج سے نبٹنے والے کسی پولیس کے جوان یا افسر کے پاس جان لیوا اسلحہ تھا ہی نہیں،اُنہیں تو صرف ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس ہی فراہم کی گئی تھی۔
ابھی تک تونو مئی کے معاملات ہی سمٹنے نہیں پائے ہیں کہ نیامسئلہ کھڑا ہو چکا ہے۔ معاشی حالات تو دِگرگوں ہیں ہی، سیاسی استحکام بھی آ کے نہیں دے رہا۔صوبوں میں گورننس کے لا تعداد مسائل ہیں، تعلیم صحت اور اَمن و امان صوبوں کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اِس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی،سارا زور احتجاج پر ہے اور اُس میں بھی سرکاری وسائل بے دریغ استعمال کئے جاتے ہیں۔ویسے تو پی ٹی آئی نے 2014 ء میں دھرنا دیا، 126 روز تک ڈی چوک میں ڈیرہ ڈالے رکھا، 2018 ء میں اُس کی حکومت قائم ہوئی لیکن عمران خان وزیر اعظم سے زیادہ قائد حزبِ اختلاف کی طرح گفتگو کرتے رہے، 2022ء میں اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو ئی اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہو گئی جس کے بعد احتجاج کا ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا۔تحریک انصاف نے ایوان کی بجائے سڑکوں پر رہنے کو ترجیح دی،پھر جب عمران خان کی گرفتاری عمل میں آئی تو ہنگامہ مچ گیا۔ 2024 ء میں جیسے تیسے انتخابات بھی ہو ہی گئے، اُمید تھی کہ اب سیاسی استحکام نصیب ہو گا لیکن ایک نیا ہی پنڈورا بکس کھل گیا، انتخابات دھاندلی زدہ قرار دئیے جانے لگے۔
بہر حال پی ایم ایل (ن) نے مخلوط حکومت بنا لی لیکن پی ٹی آئی اب تک اِسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آئے روز سڑکیں بند کرنے کا اعلان کرتی نظر آتی ہے۔بے شک احتجاج ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن اِس کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں، دنیا کے ہر مہذب ملک میں احتجاج کے لئے کسی مقام کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی باقاعدہ اجازت لی جاتی ہے،وقت طے کیا جاتا ہے اور اُس میں تشدد یا دنگے فساد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔یہاں تو ایک صوبے کے وزیراعلیٰ برملا اعلان کر رہے ہیں کہ اب وہ اسلحہ لے کر نکلیں گے۔یہ رویہ جمہوری تو ہرگز نہیں ہے،یہ ملک سب کا ہے لیکن یہاں عجب ہی روایات قائم ہو رہی ہیں، کوئی بھی بیٹھ کر بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے،ہر کوئی اپنی ہی ڈیڑھ اِنچ کی مسجد بنائے بیٹھا ہے،ایسے ریاست کے معاملات آگے کیسے بڑھیں گے؟دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اہل ِسیاست قطع تعلق کر کے بیٹھ جائیں،ایک دوسرے سے مذاکرات نہ کریں۔پی ٹی آئی کے جو بھی مطالبات ہیں انہیں منوانے کے لئے اُسے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے جبکہ حکومت کو بھی مذکرات کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔ یہ کوئی دو ممالک کی جنگ تو نہیں ہے، آپس کے اختلافات ہیں، ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر بات چیت کریں، حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے بن کر دکھائیں، ڈرانے دھمکانے سے پرہیز کریں،جھوٹی خبریں پھیلانے اور پراپیگنڈہ کرنے سے مقاصد پورے نہیں کئے جا سکتے۔ آج 16دسمبر ہے، سقوطِ ڈھاکہ کا ”سیاہ دن“ ہے، اِس میں سب کے لئے سبق ہے جسے ایک بار پھر پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ انقلاب کے بعد حالات تو بدل گئے ہیں لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ مقاصد حاصل ہو گئے ہیں جو کہ مطلوب تھے۔