معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ چودہویں قسط
امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری
نیویارک میں متعدد میوزیم تھے۔ مگر میری دلچسپی کی چیز امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری (American Museum of Natural History) تھا۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے۔ یہاں تین کروڑ کے قریب اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ جس میں ڈائنوسار کے ڈھانچوں کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی شامل ہے۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ تیرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے نقشے کی مدد سے اس کا پتا سمجھا۔ اب میں خود بھی راستوں سے واقف ہوچکا تھا اس لیے باآسانی وہاں پہنچ گیا۔ آج کافی گرمی تھی۔ بلکہ ریکارڈ گرمی تھی اور درجۂ حرارت پینتیس ڈگری کے قریب تھا۔ہر جگہ تیز اے سی چل رہا تھا۔ سب وے سے نکلتے ہی میوزیم کا داخلی دروازہ تھا۔کاؤنٹر پر موجود خاتون نے داخلے کے ٹکٹ کی مختلف شرحیں میرے سامنے رکھ دیں۔ میوزیم میں داخلے کا ٹکٹ دس ڈالر کا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ اضافی طور پر اسپیس شو کا ٹکٹ لے لیا جو نو ڈالر کا تھا۔
اسپیس شو کا ٹائم شروع میں ہی تھا۔ اس لیے پہلے اسے ہی دیکھا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ غلطی ہوگئی۔میں نے بہترین چیز ابتدا ہی میں دیکھ لی جس کے بعد دوسری چیزیں جو اپنی جگہ بہت اچھی تھیں زیادہ متاثر نہ کرسکیں۔ اگر آپ کا کبھی وہاں جانا ہو تو اسپیس شوکا ٹکٹ ضرور لیں مگر اس کا وقت بعد کا رکھوائیں کیونکہ یہ سارا دن وقفے وقفے سے ہوتا رہتا ہے۔
اسپیس شو
یہ اسپیس شو ایک گول ہال میں دکھایا گیا۔ اس کی چھت گنبد کی طرح تھی۔سیٹیں بھی گول دائرے میں لگی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک نشست پر بیٹھ گیا۔کچھ ہدایات اور معلومات کے بعد شو شروع ہوگیا۔ اس میں جو معلومات دکھائی گئیں وہ ہمارے نظامِ شمسی، ستاروں، کائنات اور بلیک ہولز کے بارے میں تھیں۔ میرے لیے ان میں سے کوئی بات بھی انکشاف کی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن سب سے زیادہ متاثر کن چیز ان کے پیش کیے جانے کا انداز تھا۔عام روایتی اسکرین کے بجائے پوری گنبد نما چھت اسکرین بن گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے ایک پروجیکٹر ہال کے وسط سے ابھر کر باہر آگیا اور چھت پر سہ رخی تصویریں بنانے لگا۔ یہ منظر کشی اتنی حقیقی تھی کہ محسوس ہوتا کہ جیسے ہم کسی خلائی جہاز میں سفر کررہے ہیں اور اس کے عرشے سے کھلے آسمان کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ ساتھ میں آواز اتنی بھرپور تھی کہ کرسیوں پر بھی باقاعدہ ارتعاش محسوس ہورہا تھا۔
اس شو کا پیغام یہ تھاکہ ہم ایک لامتناہی کائنات کا حصہ ہیں، اس ترتیب سے کہ ہماری زمین نظامِ شمسی کا حصہ ہے، نظامِ شمسی ملکی وے (Milky Way)کہکشاں کا حصہ ہے، ملکی وے کہکشاؤں کے ایک عظیم تر جھرمٹ کا حصہ ہے جس کا نام ورگو سپرکلسٹر (Virgo Supercluster) ہے۔اس کی حیثیت اس کائنات میں محض ایک ذرے کی سی ہے۔ بلکہ اس زنجیر میں ہر ایک کی حیثیت دوسرے کے مقابلے میں ایک حقیرذرے کی سی ہے۔ ہمارا خمیر اس کائنات سے اٹھا ہے اور جو ایٹم ہمارے جسم کی تشکیل کرتے ہیں وہی اس کائنات کی تخلیق میں بھی کارفرما ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری اور اس کائنات کی اصل ایک ہے۔
ہیرو کے بغیر فلم
میوزیم کے باقی حصوں کا حال میں بعد میں تفصیل سے بیا ن کروں گا۔ مگر اس میوزیم اور بالخصوص اس شو کو دیکھ کر جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی اسے میں اسی وقت ہی بیان کرنا چاہوں گا۔ مجھے یہ شدت سے محسوس ہوا کہ میں ایک ایسی فلم دیکھ رہا ہوں جس میں ایک مربوط اور مکمل کہانی دکھائی گئی ہے مگر ہیرو کا تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ یہ میوزیم کائنات ، ہماری زمین، اس کے باسیوں؛ انسان، حیوان، چرند، پرند اور تمام مخلوقات کے بارے میں اتنی حیرت انگیز معلومات دے رہا تھا کہ دیکھنے والے کا متاثر ہوجانا یقینی تھا۔ مگر خالق کا ذکر اس طرح گول کردیا گیا تھا جیسے کہ یہ سب کچھ خود بخود ہوگیا ہو۔ تھوڑی دیر میں نے سوچا تو خیال آیا کہ خدا کا تعارف ان لوگوں تک جس مذہب کے ذریعے سے پہنچا ہے وہ ہر اعتبار سے ایک غیر مصدقہ مذہب ہے۔اس کی کتاب مسلمہ طور پر تحریف شدہ ہے، بائبل کثرت سے ایسے بیانات سے بھری ہوئی ہے جو قدم قدم پر مصدقہ سائنسی حقائق سے ٹکراتے ہیں۔ عیسائیوں کا بیوی اور بیٹے والا خدا اس میوزیم میں اگر نہیں ہے تو اس میں ان لوگوں کا اتنا قصور نہیں۔ ایسے احمقانہ عقیدے سے بہت بہتر ہے کہ آدمی خدا کے وجود سے ہی انکار کردے یا مذہب کو روحانی تفریح کی ایک چیز بناکر زندگی کا ایک ضمنی حصہ بنادے اور بقیہ زندگی کو مادیت کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔ اب یہی اہلِ مغرب کررہے ہیں۔
میوزیم کی تفصیل
یہ میوزیم چارمنزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ جس میں بیالیس ہالز ہیں۔ اور ایک بہت بڑا حصہ خلا اور زمین سے متعلق ہے۔ اس کا نام (Rose Center of Space and Earth) ہے۔ اس میں بگ بینگ (Big Bang) سے لے کر آج تک کائنات پر گزرنے والے تمام مراحل زمانی ترتیب کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ بعض جگہ چھوٹے چھوٹے آڈیٹوریم بھی ہیں جن میں معلوماتی فلمیں دکھائی جارہی تھیں۔ مثلاََ روز سنٹر میں بلیک ہول سے متعلق دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ کہیں وڈیو اسکرین پر معلومات دی جارہی تھیں۔ بعض جگہ کمپیوٹر اسکرین کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے معلومات حاصل کرسکتا تھا۔ اسپیس شو کے علاوہ بھی دیگر سینما ہال تھے جن میں دوسرے موضوعات پر فلمیں چل رہی تھیں۔ مگر ان کا ٹکٹ الگ سے لیناپڑتا تھا۔
یہ تمام چیزیں تفصیل کے ساتھ دیکھنے میں تو بہت وقت لگتا۔ خصوصاً اس بنا پر کہ ہر چیز کے ساتھ متعلقہ معلومات بھی لکھی ہوئی تھیں جنہیں پڑھنے میں کافی وقت لگ رہا تھا۔ میں ان تمام ہالوں میں گیا تو ضرور لیکن تفصیل کے ساتھ تین ہی جگہیں دیکھیں۔ ایک تو مذکورہ بالا روز سنٹرجس میں بڑے اچھے انداز میں معلومات پیش کی گئی تھیں۔ دوسرا ڈائناسور والا سیکشن۔ میں نے اس سے قبل ان کا صرف تذکرہ پڑھا تھا۔ مگر پہلی دفعہ براہ راست دیکھا تو ان کے قدو قامت کا کچھ اندازہ ہوا۔ ان کے ڈھانچے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے کے لیے باقاعدہ فاصلے تک چلنا پڑ رہا تھا۔ ڈھانچے کا یہ حال تھا تو گوشت پوست کے ساتھ چلتے ہوئے وہ کس قد ر بڑے اور دہشتناک لگتے ہوں گے؟
تیسرا ہال جس میں مجھے کافی دلچسپی محسوس ہوئی وہ انسان سے متعلق تھا۔ اس میں انسان کے تمام تر نظاموں اور حیوانی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ یہاں اس بات پر بڑا زور دیا گیا تھا کہ انسان کا تعلق جانوروں کے زمرے سے ہی ہے اور ارتقا کے نظریے کی روشنی میں اس کی تفصیلی وضاحت کی گئی تھی۔
خدا، انسان اور سائنس
میں پچھلے باب میں بیان کرچکا ہوں کہ مذہب کا انکار کرنے کے بعد اہل مغرب کے سامنے دو سوال آکر کھڑے ہوگئے تھے۔یہ محض اخلاقی نوعیت کے سوال نہیں تھے بلکہ خالص عقلی اور منطقی نوعیت کے سوالات تھے۔ پہلا یہ کہ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور دوسرا یہ کہ مخلوقات اورخود انسان جیسی باشعور ہستی کیونکر کائنات کے سادہ صفحے پر ابھری۔ ان سوالات کا سبب یہ علم تھا کہ کائنات ایک مادی وجود ہے۔ ہر مادی چیز کی طرح کائنات بھی خود بخود وجود پذیر نہیں ہوسکتی۔ اس کی کوئی علت ہونی چاہیے۔ یہ علت وہ شے خود نہیں ہو سکتی۔ ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ کسی کمرے میں اگر فرج رکھا ہوا ہے تو اسکے بارے میں یہ سوال لازماًاٹھے گا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ فرج خود اپنے آپ کو بنالے۔ ٹھیک یہی بات اس کائنات کی ہر شے اور خود کائنات پر بھی صادق آتی ہے کہ ان میں کوئی بھی اپنی تخلیق پر آپ قادر نہیں۔ یہ محض ایک منطقی نوعیت کی بحث نہیں بلکہ سائنسی بنیاد رکھتی ہے۔ سائنس یہ مان چکی ہے کہ کائنات کا وجود ابدی نہیں ہے۔یہ آج سے پندرہ بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور کس نے کیا۔ اس بات کے جواب میں سائنس بالکل خاموش ہے۔وہ صرف اتنا بتادیتی ہے کہ یہ دھما کہ کسی خارجی طاقت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔لیکن یہ خارجی طاقت کون تھی اور اس نے ایسا کیوں کیا ، اس کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔کیونکہ یہاں سے عالم شہود ختم ہوجاتا ہے اور عالم غیب شروع ہوتا ہے۔ اس بات کا جواب صرف مذہب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا۔( خیال رہے کہ یہاں اور اس بحث میں آگے ہر جگہ مذہب سے میری مراد اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس کی کتاب بالکل محفوظ ہے۔)
ملحدین (یعنی خدا کے منکر) مذہب کے اس دعوے کے جواب میں فوراً کہتے ہیں کہ پھر خدا کو کس نے بنایا۔ لیکن یہ قطعاً ایک غیر عقلی اور غیر منطقی سوال ہے۔ کائنات اور اس کی ہر چیز کے بارے میں ایک خالق کا سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ان کا تجزیہ کرکے یہ بتایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک خالق کی ضرورت ہے۔ ان کا مادی ہونا اور قابل تجزیہ ہونا لازم کرتا ہے کہ یہ بنائی گئی ہیں ، خود بخود سے وجود میں نہیں آئیں۔ کیا کوئی ملحد خدا کی ذات کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا ایک مخلوق ہے جس کا کوئی خالق ہونا منطقی طور پر ضروری ہے؟ کیا مذہب یہ کہتا ہے کہ خدا ایک مادی وجود ہے کہ سائنسی اعتبار سے یہ سوال اٹھے؟ دراصل خدا کے غیر مادی ہونے کی وجہ سے سائنس کی بنیاد پر خدا کا اقرار ممکن ہے نہ انکار۔ سائنس صرف یہ کر سکتی ہے کہ مادی دنیا کے مطالعے کے بعد ، خدا کے امکان کے بارے میں کوئی منفی یا مثبت شہادت دے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیں کہ اس بحث میں سائنس کی حیثیت ایک جج کی نہیں بلکہ گواہ کی سی ہے۔اور اس دور میں سائنس نے خدا کے ہونے کے امکان کے حق میں شہادت دے دی ہے۔
اس معاملے میں فیصلہ کن کردار عقلِ عام (Common Sense) کا ہے۔چنانچہ مذہب کا مقدمہ سائنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلِ عام کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ مذہب کا مخاطب انسان ہے۔ اور انسان اپنی زندگی سائنس کے اصولوں پر نہیں بلکہ عقلِ عام کے اصولوں پر گزارتاہے۔ وہ اپنی زندگی کا پورا ڈھانچہ عقلِ عام کو استعمال کرکے ہی قائم کرتا ہے۔یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ خدا تو بہت آگے کی ہستی ہے خود انسان سائنس کے دائر ہ کارسے باہر ہے۔ انسان سائنس کے دائر ہ کارمیں آتاہے نہ اس کے اعتبار سے چیزیں سمجھتا ہے۔ یہاں انسان سے میری مراد اس کا حیوانی وجود نہیں بلکہ عقلی اور شعوری وجود ہے۔ سائنس کا دائر ہ کارصرف اور صرف جمادات، نباتات اور حیوانات تک محدود ہے۔
اس بات کو چند مثالوں سے سمجھیں۔ نیوٹن کا تیسرا قانون ہے کہ ہر عمل کا ردعمل اتنا ہی ہوتا ہے اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کتنی دفعہ انسانوں کے شعوری وجود کو اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انسان اس اصول کی پابندی کرسکتا ہے مگر اس اصول کاپابند نہیں۔ جبکہ پوری کائنات اس اصول کی پابند ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین ہر آن متحرک ہے۔ آپ نے کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کو کبھی کہتے سنا ہے کہ میں حرکت کررہاہوں۔ کوئی ایساکہے گا تو لوگ اسے پاگل خیال کریں گے۔ انسان اپنی زندگی کی ترتیب عقلِ عام کے اصولوں کے تحت بناتا ہے، نہ کہ سائنس کے تحت۔ وہ سائنس کی اس وقت تک پیروی کرتا ہے جب تک وہ عقلِ عام سے موافقت کررہی ہو۔ انسانوں کے لیے آج بھی سورج ’’ڈوبتا‘‘ اور ’’طلوع‘‘ ہوتا ہے۔ سائنس کا جو دل چاہے کہتی رہے۔
لہٰذا مذہب نے انسان پرخدا کے وجود کی دلیل سائنس سے قائم نہیں کی بلکہ عقلِ عام کی مدد سے بالواسطہ دلیل قائم کی ہے۔ پورا قرآن ان دلائل سے بھرا پڑا ہے جو اس نے عقلِ عام کی روشنی میں انسانوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جس کو دیکھنا ہو وہ قرآن میں ان کی تفصیل دیکھ لے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات اور خود انسان کے وجود میں کوئی کام الل ٹپ نہیں ہورہا۔ بلکہ ایک حکمت، ربط اور ترتیب کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے انسانوں سے منوانے کی ضرورت پڑے۔ یہ اس کا مشاہدہ ہے۔ یہ اس کے لیے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ قرآن ان حقیقتوں کو اس کے سامنے رکھ کر اکثر خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اگر انسان عقلِ عام کو استعمال کرے تو ٹھیک نتیجے پر پہنچ جائے گا بشرطیکہ وہ وہاں پہنچنا چاہے۔ اس کی عقلِ عام اسے یہ بتادے گی کہ حکمت اگر پائی جارہی ہے تو لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم موجود ہے، اگر نظم موجود ہے تو عقلِ عام کے لیے اس کے سواچارہ ہی نہیں کہ ناظم کو مانے۔ قرآن کا اصل زور اس ذات کو منوانے پر نہیں، اس کی صفات کے صحیح تعارف پر ہے۔ کیونکہ انسان اصل ٹھوکر یہاں کھاتا ہے۔
خدا کی ذات کا ثبوت
قرآن نے خدا کے ہونے کے ثبوت کے لیے براہِ راست خارجی دنیا کی صرف ایک دلیل پیش کی ہے۔ جو کہ سورۂ النور 24:35 ۔40، میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اس کائنات کی ایک ہی توجیہ ممکن ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کو کائنات کا خالق مان لیا جائے۔ اللہ کو نکال دینے کے بعد کائنات کی کوئی عقلی تو کیا غیر عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح ایک اندھیرے کمرے میں جب تک روشنی نہیں ہے آپ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ جیسے ہی روشنی ہوگی ہر چیز اپنی جگہ ٹھکانے پر نظر آنے لگے گی۔ اسی طرح خدا کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی کے بعد کائنات میں ہر چیز ( میں اس کی تفصیل قرآن کے علم الانسان کے عنوان سے آگے بیان کررہا ہوں) اپنی درست جگہ پر نظر آئے گی اور اس کے بغیر آپ کائنات کے بارے میں بلا یقین متضاد باتیں کہتے رہیں گے۔ تاریکی پر تاریکی۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خدا کے سوا اس کائنات کی کسی دوسری توجیہ کا نہ ہونا آخری حد تک ثابت کرتا ہے کہ اگر کائنات کے ہونے کو ہم مانتے ہیں تو ہمیں خدا کو بھی ماننا ہوگا اور اگر نہیں مانتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم کائنات کے وجود کے منکر ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس بنا پر خدا کو نہیں مانتے کہ وہ سائنسی طور پر ایک تسلیم شدہ حقیقت نہیں ہے ، وہ ایک دوسری ہستی کو ماننے پر مجبور ہیں جو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اور نہ اس کے دائرہ میں آتا ہے۔ یہ خود حضرتِ انسان کا اپنا شعوری وجودہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ا نسان کے شعوری یا روحانی وجود کو سائنس کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے نہ اس کے قوانین کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ اوپر میں دکھاچکاہوں کہ انسان اپنی زندگی کانقشہ بھی سائنس کی روشنی میں نہیں بناتا۔ اس کے باوجود انسان کے شعوری وجود کو نہ صرف مانا جاتا ہے بلکہ اس کے مطالعہ کے لیے علم النفسیات کے نام سے ایک پورا علم وجود میںآگیا ہے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)