اکتالیسویں قسط۔۔۔ معلومات سفرنامہ
کولا لمپور کی دو بلند عمارات
کولا لمپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں دنیا کی دو بڑی عمارات موجود ہیں۔ ایک پیٹروناس ٹاور (Petronas Tower) اور دوسری کے ایل ٹاور (KL Tower)۔ پیٹروناس ٹاور امریکہ کے آنجہانی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح جڑواں عمارتیں ہیں جسے 1998 سے 2004 تک دنیا کی بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ 452 میٹر بلند یہ تعمیر آج بھی جڑواں عمارتوں کی حیثیت سے دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ جبکہ KL ٹاور جس کا اصل نام مینارہ کولالمپور ہے، ایک کمیونیکشن ٹاور ہے۔ اس کی اونچائی 421 میٹر ہے۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ چالیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہم ان دونوں عمارتوں پر گئے اور وہاں سے شہر کا نظارہ کیا۔ KL ٹاور پر ایک مشاہداتی عرشہ (Observatory Deck) بنا ہوا تھا جس سے شہر کا دلفریب نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم وہاں شام کے وقت گئے جب دن اور رات دونوں میں شہر کو دیکھنا ممکن تھا۔ وہاں ٹاور پر ایک ریسٹورنٹ بھی تھا۔ میں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ پہلے سے ریزرویشن کرانی ہوتی ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک کے جمہوری وزیر اعظم اپنے وزرا اور امرا کا لشکر جرار لے کر جب کولالمپور تشریف لائے تو پاکستانی سفارت خانے نے ان کے اعزاز میں یہاں ایک ڈنر دیا۔ یقیناً اس سے ملائیشیا کے لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کوئی غریب ملک نہیں ہے بلکہ ایک ’ترقی یافتہ ‘ملک ہے۔ اس ملک کے پاس اتنا فالتو پیسہ ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو بلند ترین جگہ ڈنر کرواکے اقوامِ عالم میں ان کا قد بے دھڑک بلند کرسکتا ہے۔
پیٹروناس ٹاور دیکھنے کے لیے ہم صبح کے وقت گئے۔ پیٹروناس دراصل ملائیشیا کی تیل اور گیس کی کمپنی ہے اور زیادہ تر اسی کے دفاتر ان دونوں عمارتوں میں موجود ہیں۔ ان جڑواں عمارتوں کو اکتالیسویں فلور پر آپس میں ایک پل کے ذریعے سے ملایا گیا ہے جسے اسکائی برج کہتے ہیں۔ چاروں طرف سے بند اور ہوا میں معلق یہ پل عام لوگوں کے لیے روزانہ کھولا جاتا ہے۔ یہاں سے شہر کا نظارہ کرنا ممکن ہے۔ KL ٹاور کے برعکس یہاں کا داخلہ مفت تھا۔ اس کا ٹکٹ منگل سے اتوار تک پہلے آنے والے سترہ سو افراد کو دیا جاتا ہے۔ ٹکٹ سات بجے صبح سے ملنا شروع ہوتے ہیں اور تقریباً نو بجے صبح تک سارے ٹکٹ تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد لوگ دن بھر اپنی سہولت کے اعتبار سے یہاں آتے رہتے ہیں اور اس دوران میں عمارت کی ابتدائی منزلوں پر واقع ایک انتہائی شاندار اور بڑے شاپنگ ہال میں خریداری کرتے یا گھومتے ہوئے وقت گزارتے ہیں۔ یہ ساری معلومات ملائیشیا آنے سے قبل میں نے انٹرنیٹ پر حاصل کرلی تھیں۔
سیاہ چہرے
پیٹروناس ٹاور پر ایک بہت غیر معمولی واقعہ پیش آیا جو شاید عمر بھر یاد رہے۔ ہوا یہ کہ ہم اتوار کے دن دوپہر کے وقت یہاں آئے۔ ٹکٹ ملنے کا کوئی سوال اس لیے نہیں تھا کہ عام روایت کے مطابق سارے ٹکٹ صبح نو بجے تک لوگ لے جاچکے ہوتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں صرف شاپنگ سنٹر دیکھنے پر گزارا کرنا ہوگا۔ تاہم وہاں پہنچ کر نجانے کیا دل میں آیا کہ لوگوں سے پوچھ پوچھ کر اس جگہ چلا آیا جہاں اسکائی برج کی لفٹ میں جانے کا راستہ تھا۔ وہیں ٹکٹ ملنے کا کاؤنٹر تھا۔ میں نے وہاں متعین نوجوان سے پوچھ لیا کہ کیا کوئی ٹکٹ دستیاب ہے۔ اس نے وہی جواب دیا جس کی مجھے توقع تھی کہ سارے ٹکٹ تقسیم ہوچکے ہیں۔
میں اپنی وائف کے ہمراہ وہیں کھڑا ہوکر ٹاور کی تصویریں دیکھنے لگا کہ اتنے میں اس نوجوان نے مجھے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ ہمارے پاس دو ٹکٹ کینسل ہوئے ہیں۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو ٹکٹ دے سکتا ہوں۔ ہمارے لیے تو یہ اندھے کو دو آنکھیں مل جانے والی بات تھی۔ اس وقت ایک انڈین جوڑا بھی وہاں موجود تھا۔ انڈین لڑکے نے ٹکٹ والے سے کہا کہ یہ ٹکٹ مجھے دے دیں۔ میں شام کی فلائٹ سے واپس جارہا ہوں اور یوں اس منظر کو نہیں دیکھ سکوں گا۔ مگر ٹکٹ والے نے اس کے بار بار اصرار کے باوجود یہی جواب دیا کہ جو پہلے آیا ہے اس کو پہلے ٹکٹ دیا جائے گا۔ آخر کار اس نے ٹکٹ مجھے دے دیا۔
اس وقت میں نے ان دونوں انڈین لڑکے اور لڑکی کی جو شکل دیکھی اس میں مجھے قرآن کے ان الفاظ کی تصویر زندگی میں پہلی دفعہ نظر آئی جو اس نے جنت کی بادشاہی کے حصول میں ناکام لوگوں کی منظر کشی کرتے ہوئے کہے ہیں۔ قرآن ان مقامات پر ان لوگوں کے لیے ’’سیاہ چہرے‘‘ کی ایک ترکیب استعمال کرتا ہے۔ اس روز ان دونوں کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ ناکامی، امید کا ٹوٹ جانا، کسی انتہائی مطلوب نعمت کا نہ ملنا کس طرح چہرے پر حسرت، غم اور مایوسی کی سیاہی مل دیتا ہے۔ اس کے بعد انتظارگاہ میں بیٹھ کر میں بہت دیر تک یہ سوچتا رہا کہ قیامت کے دن کی حسرت کیسی ہوگی۔ اس وقت میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ پروردگار روزِ قیامت حسرت کی اس روسیاہی سے مجھے محفوظ فرما۔ تو نے اگر یہ دیکھ لیا ہے کہ قیامت کے دن میرے ناقص اعمال کی بنا پر فرشتے مجھے جنت میں جانے سے روک دیں گے تب بھی تو محض اپنے فضل سے جنت میں بلا استحقاق داخلے کا فیصلہ کردے۔
Malaysia Truely Asia
نوے کی دہائی کے آخر میں جب میں سعودی عرب میں مقیم تھا، مجھے جگہ جگہ بڑے بڑے بل بورڈ (Billboard) نظر آتے تھے جن میں ملائیشیا میں سیاحتی مقصد سے آنے کی دعوت دی جاتی۔ ان پر نمایاں طور پر یہ سلوگن درج ہوتا تھا۔
Malaysia Truely Asia
یعنی ملائیشیا ہی اصل ایشیا ہے۔ اپنی ترقی کے اعتبار سے ملائیشیا واقعی چینی اقوام کے ہم پلہ نظر آتا ہے۔ مگر سیاحت کے فروغ کے لیے جو نعرہ انھوں نے لگایا ہے اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اہل ملائیشیا نے سیاحوں کے لیے اپنے ملک کو واقعتا انتہائی پرکشش اور باسہولت بنادیا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں ملائیشیا میں اپنی اگلی دو منزلوں پر ہوا۔ یعنی گینٹنگ اور لنکاوی۔
گینٹنگ ہائی لینڈ
گینٹنگ ہائی لینڈ(Genting Highlands) کولالمپور سے 50 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ایک خوبصورت اور دلکش پہاڑی مقام ہے۔ اس مقام کی خوبی یہ ہے کہ 2000 میٹر کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہاں موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے۔ یعنی 20 ڈگری کے قریب۔ موسم خنک ہے، مگر ایسا نہیں کہ برا لگے۔ بارش اکثر ہوتی ہے اور بیشتر وقت یہ علاقہ بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں کے ہوٹلوں میں کمرے کے اندر بادلوں کا آنا معمول کی بات ہے۔ ہمیں بھی اس کا تجربہ ہوا۔ ملائیشیا کے بارشوں سے بھرپور موسم کی بنا پر ہر جگہ درختوں کی بہار اپنا بھرپور رنگ جمائے رہتی ہے۔
قدرت کے اس فطری حسن کو یہاں کی حکومت نے اپنی فراہم کردہ سہولیات سے جب آراستہ کیا تو ملائیشیا اور دنیا بھر سے آنے والوں کے لیے سیاحت اور تفریح کا ایک بہت اعلیٰ مقام وجود میں آگیا۔ کولالمپور سے گینٹنگ تک کا راستہ بہت ہموار اور کشادہ بنا ہوا ہے۔ بسیں انتہائی صاف ستھری اور آرام دہ جن کا کرایہ بہت کم ہے۔ یہاں دو کیبل کار لوگوں کی تفریح کے لیے ہیں جن میں ’Genting Skyway‘ دنیا کی سب زیادہ تیز رفتار اور جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے طویل (3.8کلو میٹرلمبی) کیبل کار ہے۔ یہ سرسبز جنگلات اور گہرئی کھائیوں سے ہوتی ہوئی کافی نشیب میں واقع قصبے ’ Gohtong Jaya‘ تک جاتی ہیں۔ گینٹنگ کی اصل کشش یہاں بنا ہوا تھیم پارک ہے جہاں بچوں اور بڑوں کے لیے متعدد اقسام کے جھولے، رائڈز اور تفریحی چیزیں ہیں۔ ایک دفعہ کرایہ دے کر سارے دن جتنی دفعہ چاہیں ان کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ البتہ بعض نئے جھولے جن میں لوگوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، ان کا ٹکٹ ہر دفعہ لینا ہوتا ہے۔
یہاں بہت سے اعلیٰ درجے کے ہوٹل ہیں۔ ویک اینڈ اور تعطیلات میں تو یہ بھرے رہتے ہیں، لیکن عام دنوں میں جب رش نہیں ہوتا تو یہ کرائے اتنے کم کردیتے ہیں کہ وہ لوگ بھی یہا ں آجاتے ہیں جو سیزن میں آنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ ہوٹل بارش اور موسم کے مسائل سے محفوظ راستوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ یہاں ایک ان ڈورتھیم پارک، کھانے پینے اور خریداری کی بہت سی دکانیں بھی ہیں۔ یہاں ایک کیسینو بھی بنا ہوا ہے جہاں مقامی مسلم ملائیشین لوگوں کے داخلے پر پابندی ہے البتہ دوسرے لوگ وہاں جاسکتے ہیں۔
فطرت کے حسن کے ساتھ انسانی ضروریات ، آرام اور تفریح کا خیال رکھتے ہوئے بنائی گئی یہ جگہ سالانہ تقریباً دو کروڑ لوگوں کو اپنے ہاں آنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ جگہ جو ساٹھ کی دہائی تک پہاڑی جنگل کی حیثیت رکھتی تھی ملائیشیا کے ایک چینی ارب پتی سرمایہ دا ر Lim Goh Tongنے تعمیر کی۔ یہاں بنیادی خیال سے لے کر سرمایہ تک ہر چیز اس کی محنت کا نتیجہ تھی۔ آخر کئی برس کی تعمیر اور محنت کے بعد 1971 میں اس کا افتتاح ہوا اور بتدریج یہ ملائیشیا اور پھر دنیا کے معروف تفریحی مقامات میں شامل ہوگیا۔
خیال کی یہ بلند پروازی، ان تھک محنت، آگے بڑھنے کا جذبہ، حال میں رہ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرلینا، یہی وہ خصوصیات ہیں جنھوں نے ملائیشیا کو حققیے ایشیا بنادیا ہے۔ اور رہے ہم تو ہماری کیا بات ہے۔ دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلے، بلند ترین چوٹیاں، حسین ترین وادیاں، ان میں بہتے حیات آفریں دریا، وسیع و عریض صحرا، طویل اور خوبصورت ساحلی پٹیاں، قدیم ترین تہذیوں کے آثار، مغلیہ عہد کے شاندار تاریخی مقامات کے حامل ہمارے ملک میں سیاحوں کو راغب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ نہ اپنے لوگوں کے لیے ہی کسی تفریحی مقام کو تعمیر کرنے یا قدرت کے عطاکردہ تحفوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلکہ ان مقامات پر سہولیات کی کمی کا یہ حال ہے کہ چند مقامات کو چھوڑ کر فیملی کے ساتھ ساتھ جانا بھی مشکل ہے۔