وزیر اعلیٰ پنجاب آئی جی پولیس سے خوش کیوں؟
پولیس والے کا نام سنتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے ایک خوفناک چہرہ رقص کرنے لگتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی آپ کے موبائل کی گھنٹی بجے اور دوسری جانب سے یہ آواز آئے کہ”ہم فلاں پولیس اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔کل دس بجے آپ کو تھانہ میں حاضر ہونا ہے”تو آپ کا دماغ گھوم جاتا ہے اور طرح طرح کے خیالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں اور آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ مجھ سے ایسا کیا جرم سرزد ہوا ہے؟ آپ اپنے دماغ پر زور ڈالنے لگتے ہیں کہ آیا میرے تعلقات کسی جرائم پیشہ فرد سے تو نہیں ہیں؟ میں نے کسی کو دھمکایا تو نہیں؟ یا پھر ماضی میں کوئی ایسا غلط کام تو نہیں کیا جس کا خمیازہ مجھے آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔ میں نے کسی کیس میں گواہی تو نہیں لکھوائی ہے؟ ساری رات آپ بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہوجاتا ہے اور حلق خشک ہو جاتا ہے اسی کے ساتھ آپ کے ذہن پر پولیس کا ایک عجیب سا خوف طاری ہوجاتا۔ لیکن،،،لیکن جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں اسی طرح سب پولیس والے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ فلم شعلے میں ویرو کے اس ڈائلاگ کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے کہ (مجھے تو سب پولیس والوں کی شکلیں ایک جیسی لگتی ہیں) آج میں جس پولیس آفیسر کی بات کرنے جارہا ہوں وہ پنجاب پولیس کے کمانڈر ڈاکٹر عثمان انور ہیں جنہیں نگران حکومت کے دور میں جنوری 2023 میں بطورآئی جی پولیس پنجاب تعینات کیا گیا نگران حکومت اور اس دوران تعینات افسران کی ذمہ داری غیر جانبدار رہتے ہوئے الیکشن کروانا تھا۔ مگر مقررہ وقت پر الیکشن تو نہ کروائے جاسکے۔اس دوران پنجاب میں سیاسی کشیدگی عروج پر رہی اور سانحہ 9 مئی کا واقعہ بھی سرذد ہو گیا۔آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور کواس دوران کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔حکومت اور اداروں کی جانب سے جو ٹارگٹ انہیں دیے گئے ان سے نبر آزما اور سرخرو ہو نا آسان کام نہیں تھا۔جتنی تنقید ڈاکٹر عثمان انور پر ہوئی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن ڈاکٹر عثمان انور نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور کارکردگی سے یہ ثابت کیا کہ وہ نالائق اور بددیانت آفیسرز نہیں، ایک کامیاب اور نڈر کمانڈر ہیں۔ اس دوران انہوں نے صوبہ بھر کے پولیس اسٹیشن کی عمارتوں کو خوبصورت بنانے، تھانہ کلچر میں تبدیلی،مقدمات کے اندراج کو بروقت یقینی بنانے،بیرون ملک فرار اشتہاریوں کو واپس لانے اور سپاہ کی ویلفیئر کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔آرپی او اور ڈی پی اوز کی تعیناتی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو انہوں نے اپنی ٹیم کو پورا اعتماد دیا کہ محنت اور ایمانداری سے کام کریں کسی کو بلاوجہ تبدیل نہیں کیا جائے گا اور پہلی بار یہ دیکھنے کو ملا کہ ان کی ہدایت پر تعینات آرپی اوز اور ڈی پی اوز ایک سال سے زائد وقت گزارنے کے باوجود کام کررہے ہیں۔ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کویہ فارغ کرتے رہے۔کسی بھی آفیسر کی کرپشن یا ناقص کارکردگی کی شکایت اگر سامنے آئی ہے تو اسے معاف نہیں کیا گیا چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اور ان الزامات پر کئی ڈی پی اوز تبدیل بھی ہوئے ہیں اور انہیں محکمانہ انکوائری کا بھی سامنا ہے۔ سینٹرل پولیس آفس میں ’گڑ بڑ‘ کرنے والوں کو بھی معاف نہ کیا گیا۔پرموشنز اور سزاؤں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو جتنی پرموشنز ان کے دور میں ہوئی ہیں یا کرپٹ اہلکاروں کو جتنی سزائیں ڈاکٹر عثمان انور نے دی ہیں ماضی میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ سینٹرل پولیس آفس جیسی حساس اور اہم عمارت کی سکیورٹی کا ہم سب کو علم ہے لیکن آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس شہدا کی فیملیز کے حوالے سے اپنے سٹاف کو حکم دے رکھا ہے کہ کسی بھی شہید کی فیملی کا کوئی فرد ان سے ملنا چاہے۔ تو اسے انتہائی عزت اور پروٹوکول کے ساتھ فوری طور پران سے ملوایا جائے۔ پنجاب پولیس کی کوئی بھی تقریب ایسی نہیں ہے جس میں پولیس شہدا کی فیملیز شریک نہ ہوں۔ڈاکٹر عثمان انور پولیس ویلفیئر اور شہدا کی فیملیز کا خیال رکھنے کے حوالے سے جتنی شہرت رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مشہور کرائم فائٹر پولیس آفیسر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ انہیں کرائم کنٹرول کرنے میں ملکہ ہے۔ ان کی لیڈر شپ کوالٹی ہی ہے کہ ہم نے دیکھا کہ یہ پنجاب کے ہر ضلع کی صورت حال سے واقف ہوتے ہیں اور ویڈیو لنک آر پی او، ڈی پی او کانفرنسز کی بدولت انتہائی فعال ٹیم کے ساتھ صوبے بھر کی نگرانی خود کررہے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ صوبے کے کس ڈسٹرکٹ میں کرائم کے حوالے سے کیا صورت حال ہے اور کہاں کہاں کتنی کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی فورس کو لیڈ کرنے کے لئے صرف ایمانداری ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ لیڈر شپ کی صلاحیتوں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور میں یہ دونوں خوبیاں موجود ہیں۔ ان کی ایمانداری کی گواہی تو سبھی دیتے ہیں لیکن جس طرح وہ ایماندار افسران کی ٹیم تشکیل دے کر صوبہ بھر میں کرائم کنٹرول کرنے کی صلاحیتیں منوا چکے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ڈاکٹر عثمان انور نے جب پنجاب پولیس کی کمان سنبھالی تب صوبے میں لا اینڈ آرڈر کے مسائل عروج پر تھے۔ انہوں نے نہ صرف تیزی سے کرائم کنٹرو ل کیا بلکہ ان کے دور میں ریکارڈ اشتہاری ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں۔ انہی کے دور میں پنجاب دہشت گردی سے پاک ہوا اور کچے کہ ڈاکوؤں سے ہمیں نجات ملی ہے کیونکہ انہوں نے بین الصوبائی اور بین الاضلائی چیک پوسٹوں پر سخت نگرانی کا عمل ترتیب دیا ہے اور پولیس فورس کا مورال اس قدر بلند کر دیا ہے کہ ان کے سپاہی عوام کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں تک داو پر لگا دیتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بطور کمانڈر یہ نفری کی کمی کے مسائل کو جدید آئی ٹی پراجیکٹس کی مدد سے حل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج نئی حکومت آنے کے باوجود انہیں تبدیل نہیں کیا جارہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ایسا پولیس آفیسر تعینات ہو جو اپنی کارکردگی سے عوام کے دل جیتنا جانتا ہو تو اسے بھرپور سپورٹ کرنا بھی لازم ہے کیونکہ ایسے افسران ہی ہمیں اور ہمارے بچوں کو تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ان کے کام کرنے کے طریقے نے نہ صرف فورس کو متاثر کیا ہے بلکہ وزیر اعلی پنجاب اور میڈیابھی انکی کمانڈنگ سے خوش ہیں۔ویسے بھی یہ ایمان کی علامت ہے کہ اگرآپ کسی میں کوئی خوبی دیکھو تو اسے سراہو اور دوسروں تک پہنچاؤ تا کہ آپ کی نیکیوں میں اضافہ ہو۔پاتے ہیں کچھ گلاب چٹانوں میں پرورش۔۔۔آتی ہے پتھروں سے بھی خوشبو کبھی کبھی۔۔