آصف زرداری اور بلاول کو چیف جسٹس کی ہدایت

آصف زرداری اور بلاول کو چیف جسٹس کی ہدایت
آصف زرداری اور بلاول کو چیف جسٹس کی ہدایت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اعلیٰ ترین عدلیہ کے سربراہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے تھرپارکر میں بچوں کی مسلسل اموات کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پاکستان کے سابق صدر اور سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا باقاعدہ نام لے کر ان دونوں حضرات کو ہدایت کی کہ وہ بھی اپنی جیب سے تھرپارکر میں کچھ کام کریں۔ جناب چیف جسٹس نے ایسی بات کہہ دی جو پاکستانی سیاست دانوں کے مزاج کا کبھی حصہ نہیں رہی ہے، حالانکہ تھرپارکر میں پینے کے پانی کو میٹھا کرنے والے سرکاری خرچ پر تعمیر کرائے گئے آر او پلانٹ کے منصوبوں پر بھی آنے والی لاگت حقیقی رقوم سے بہت زیادہ تھی، جس میں بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی۔

یہ سارا کام اومنی گروپ نے کیا جس کا نام نہاد سربراہ انور مجید قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے کی تحقیقات کو بھگت رہا ہے اور جیل میں ہے۔ انور مجید سرکاری کاموں میں کی گئی خورد برد کی معلومات کا خزانہ رکھتا ہے۔ وہ تو کل کی بجائے آج سلطانی گواہ بن کر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ میں سلطانی گواہ بن جانے والے سرکاری ملازم مسعود محمود کی طرح یورپ میں زندگی کے بقایا دن گزارنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ وہ کسی اور کی خاطر جیل میں زندگی گزارے، اگر ان ہی آر او پلانٹس کو توجہ اور دیکھ بھال کے ساتھ چلایا جائے تو تھرپارکرکے کئی علاقوں میں لوگوں کو پینے کے لئے میٹھا پانی میسر آسکتا ہے، جن سے کاشت کاری بھی کی جاسکتی ہے۔بہت کم لاگت میں چھوٹے چھوٹے آر او پلانٹ جن سے دس ہزار لیٹر پانی روزانہ کی بنیاد پر میٹھا کیا جاسکتا ہے۔ نصب کرائے جاسکتے ہیں۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن مختلف علاقوں میں اس طرح کے پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک پلانٹ پر بہت زیادہ بیس لاکھ روپے کا خرچہ آرہا ہے۔ یہ ہی کام سرکاری خرچ پر پچاس لاکھ میں کرایا جاتا ہے اور پھر اس کی دیکھ بھال کی طرف سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔ کیوں نہیں آصف زرداری اور بلاول بھٹو سرکاری خرچ پر نصب آر او پلانٹوں کی دیکھ بھال پر آنے والے خرچ کو بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن جب انسان کے دل میں گنجائش ہی نہ ہو تو اس کے ذہن میں بھی بات نہیں آتی ہے۔ بلاول کا تو ذاتی زندگی میں رویہ ایسا ہے کہ ان کے ایک ہمسفر نے بتایا کہ جب انہوں نے انتخابات سے قبل عوامی رابطہ کے لئے دورے کئے تو انہوں نے ان کے ساتھ موجود غیر ملکی پینے کا پانی اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء بھی صرف اپنی ذات کے لئے استعمال کیں۔ ان کے ساتھ یہ سامان ایک علیحدہ گاڑٰ ی لے کر چل رہی تھی۔ذاتی خرچ سے تعلیمی ادارے، ہسپتال، ہسپتالوں میں مشینیں وغیرہ فراہم کرنا تو دور کی بات ہیں۔ یہاں تو لوگ اپنے علاقوں میں پانی کی سبیل، غریب بچوں کی تعلیم کے لئے وظائف اور نادار بچوں اور افراد کی کفالت کے لئے سر پر سایہ تک تعمیر نہیں کراتے ہیں۔


یہاں تو رواج ہے کہ سرکاری خرچ پر تعمیر ہونے والے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں کو اپنے نام موسوم کرالیا جاتا ہے۔ 2008ء کے بعد سے سندھ میں تو یہ وبا اتنی تیزی سے پھیلی کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے تمام میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ کالجوں، ہسپتالوں کو بلاول بھٹو، ان کی ہمشیراؤں بختاور اور آصفہ کے نام موسوم کردیا، حالانکہ ان لوگوں کی نہ تو کوئی سرکاری حیثیت رہی اور نہ ہی ان لوگوں نے ان اداروں کی تعمیر کے لئے اپنا ایک دھیلہ دیا۔ قائم علی شاہ نے تو خیرپور میں بلدیہ کی زمین پر تعمیر ہونے والے ایک شاپنگ سینٹر کو اپنے والد مرحوم رمضان شاہ کے نام موسوم کردیا۔

یہ عمل سندھ میں طویل عرصے سے جاری ہے۔ سہون میں قائم سرکاری ہسپتال کو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے مرحوم والد عبداللہ شاہ کے نام موسوم کردیا۔ ضلع سکھر میں قائم ہونے والے سرکاری میڈیکل کالج کا نام اس وقت کے وزیر اعلیٰ علی محمد خان مہر نے اپنے تایا سردار غلام محمد مہرکے نام موسوم کر دیا تھا ۔ زرداری ہوں یا مہر یا جتوئی، یا کوئی اور نامور شخصیات، ان کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک کیا دس تعلیمی ادارے ، ہسپتال وغیرہ وہ لوگ تعمیر کرا سکتے ہیں، لیکن ان کا ہاتھ اپنی جیب میں نہیں جاتا ہے۔ عوامی فلاح کے لئے، خیرات کرنے کے لئے وسعت قلب چاہئے۔ راتوں کی محفلوں پر ہزاروں روپے روزانہ خرچ کرنے والوں کے دلوں میں گنجائش ہی پیدا نہیں ہوتی کہ وہ کچھ سو روپے غریب بچوں کی تعلیم کے وظیفہ کے لئے ہی مقرر کردیں ۔


سندھ میں تو قیام پاکستان سے قبل یہ رواج عام تھا کہ وسائل رکھنے واے لوگ اپنی جیب سے عوام کی فلاح و بہبود پر رقم خرچ کیا کرتے تھے ۔ حیدرآباد میں اس زمانے میں تعمیر کئے گئے تمام تعلیمی ادارے ایسے ہی لوگوں نے اپنی جیب سے بڑی رقم لگا کر اور چندے جمع کر کے تعمیر کرائے تھے ۔ تولا رام گرلز ہائی سکول ( سٹی کالج) ، کندن مل گرلز ہائی سکول (جامعہ عربیہ سکول)، نیو وڈیالہ گرلز ہائی سکول ( سندھ یونیورسٹی اولڈ کیمپس)، اسی دور کی یاد گاریں ہیں، ان عمارتوں کے نام تبدیل کر دئے گئے، لیکن وہ روش پیدا نہ کی جاسکی کہ ایسے ہی مزید ادارے قائم کئے جاسکتے۔


ٹنڈو باگو میں ہائی اسکول اور ھاسٹل کی تعمیر عمارت بھی تو اپنی تاریخ رکھتی ہے۔ میر غلام علی تالپور اپنے اس کارنامہ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے تو ہاسٹل کے بچوں کی خوراک کے لئے بنک میں ایک رقم بھی جمع کرائی تھی جس کا منافع آج تک حاصل کیا جارہا ہے۔ حیدر آباد کے اپنے وقت کے معروف وکیل نور محمد مرحوم نے مسلمان بچوں کی خوارک کے لئے اپنی ذاتی رہائش گاہ جو صدر میں موجود تھی، اپنے وقت کے بڑے زمیندار عبدالصمد کا چھیلو کے پاس گروی رکھ کررقم فراہم کی تھی۔ اس مکان کو وہ واگزار نہیں کرا سکے تھے۔ وہ مکان فروخت ہونے سے قبل تک کا چھیلو کی اولاد کے قبضے میں تھا۔ آج نور محمد ہائی اسکول جہاں سے ہزاروں بچے تعلیم یافتہ ہوکر نکلے، انگریز کے زمانے میں حیدرآباد ہائی اسکول کے نام سے قائم تھا، قیام پاکستان سے قبل کے دور میں مسلمان بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلوں میں مشکلات کا سامنا رہتاتھا، اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اسکول قائم کیا گیا تھا ۔

نور محمد مرحوم کے مخیرانہ کارنامہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سکول کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا تھا۔ حیدرآباد میں سر کاؤس جی جہانگیر نے ذہنی طور پر معذور افراد کی رہائش کے لئے عمارت تعمیر کرائی تھی۔ جس میں اب نفسیاتی امراض کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ شکار پور میں قائم آج کے سول ہسپتال کو ایک صاحب رائے بہادر ادہوداس تارا چند ( آر بی یو ٹی) نے اپنی جیب اور چندوں کی رقم سے تعمیر کرایا تھا۔ وہاں وارڈکی تعمیر کے لئے کراچی کے سیٹھ عبداللہ ہارون اور ان کی ا ہلیہ نصرت نے اپنی جیبوں سے رقم دی تھیں۔ سیٹھ عبداللہ ہارون نے کراچی میں یتیم خانوں کی بھی بنیاد رکھی تھی جو آج تک قائم ہیں۔


حیدرآباد میں قائم راجپوتانہ ہسپتال کی تعمیر بھی فتح ٹیکسٹائل ملز کے ایک مالک سیٹھ ولی بھائی اکبر جی نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر اس کی بنیاد ڈالی پھر انہوں نے راجپوتانہ کے لوگوں کی شرکت کی خاطرایک ایک شخص کے پاس جاکر چھوٹی بڑی رقم کے چندے جمع کئے اور ہسپتال میں وارڈوں پر ان کے ناموں کی تختیاں لگوائی گئیں۔ سیٹھ ولی بھائی کو ان کی اس خدمت کا ان کے دیگر بھائیوں نے یہ صلہ دیا کہ ملز کی شراکت داری سے انہیں نکال باہر کیا۔ آج ان ہی بھائیوں کی اولادوں نے سیٹھ صاحب اور ان کے اکلوتے بیٹے سیٹھ ہدایت اللہ کے انتقال کے بعد ہسپتال پر قبضہ کر لیا۔

اور خیراتی ہسپتال کو مکمل ایک تجارتی ہسپتال میں تبدیل کردیا۔ بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ماضی کی مثالیں نہیں پائی جاتی ہیں۔حیدرآباد میں جانوروں کے پانی پینے کے در جنوں پیاؤ ، ان کے سستانے کے لئے سائبان وغیرہ تو بیوائیں اپنے شوہروں اور والدین اپنی اولادوں کے نام پر تعمیر کرایا کرتے تھے۔ جن پر بلدیہ اور شہریوں نے قبضے کرلئے اور ذاتی جائیدادیں تعمیر کر لیں۔ دیکھیں ایسے مزاج والی قوم میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو جناب چیف جسٹس کی ہدایت کی کہاں تک پاسداری کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -