جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر90
اچانک میرے پیر جلنا شروع ہوگئے جیسے میں تپتے ہوئے توے پر چل رہا ہوں۔ اذیت کے باعث میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔ پاؤں زمین پر رکھنا محال تھا۔ ایک پاؤں اٹھاتا تو دوسرا جلنے لگتا پہلا پاؤں رکھ کر دوسرا اٹھاتا تو وہ جلنے لگتا۔ تکلیف سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ محمد ۔۔۔شریف‘‘ میں نے اذیت سے پکارا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور جلدی سے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک بوتل نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر کوئی سیال سی شے کے چند قطرے زمین پر گرا دیے۔ اچانک زمین ٹھنڈی ہوگئی۔ لیکن اتنی دیر میں میرے تلوے بری طرح جل چکے تھے۔ میں لنگڑاتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑا۔
بڑی مشکل سے اپنا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔ تکلیف سے میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ آکر کار راہداری کا اختتام ایک دروازہ پر ہوا۔ یہ پہلا دروازہ تھا جو صحیح سلامت اور بند تھا۔ محمد شریف نے اس کے سامنے پہنچ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک تسبیح نکالی اور میرے گلے میں ڈال دی۔ پھر ایک اور تسبیح نکال کر دروازے پر بنے ایک کیل پر ٹانگ دی۔ یہ پرانے زمانے کا دروازہ تھا جس پر نقش و نگار کے ساتھ کچھ موٹے موٹے ابھرے ہوئے کیل بھی تھے۔ اس کے بعد اس نے وہی بوتل نکالی اور اشارے سے مجھے بوتل منہ سے لگا کر پینے کو کہا۔ میں نے ڈھکن کھول کر ایک گھونٹ برا اور بوتل اسے پکڑا دی۔ اس نے دائیں ہاتھ کا چلو بنا کر اس میں چند قطرے ڈالے اور انہیں دروازے پر چھڑک دیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر89 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’چز ززززززز‘‘ کی آواز اائی جیسے پانی جلتے توے پر پڑا ہو۔
’’ہا ۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ دل دہلا دینے والے خوفناک قہقہے لگنے شروع ہوگئے ۔ آواز اتنی بلند تھی کہ گھبرا کر میں نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیے۔ کافی دیر قہقہے جاری رہے۔ لگتا تھا کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ میں نے پورے زور سے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں۔ محمد شریف ہر چیز سے بے نیاز کچھ پڑھنے میں مصروف تھا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسے بھی قہقہوں کی بازگشت سانئی دے رہی تھی یا نہیں۔ لیکن وہ اطمینان سے اپنے عمل میں مصروف تھا۔ اچانک قہقہے لگنے بند ہوگئے اور ایک بار پھر سکوت چھا گیا۔ اتنی گہری خاموشی تھی اگر سوئی بھی زمین پر گرتی تو اس کی آواز واضح سنائی دیتی۔ اچانک دلخراش چیخ نے سکوت کو درہم برہم کر دیا۔ چیخ صائمہ کی تھی۔۔۔کرب و اذیت سے بھری چیخ سن کر میں میرا کلیجہ حلق میں آگیا۔
’’فاروق! مجھے بچاؤ۔۔۔ان درندوں سے مجھے بچاؤ‘‘ صائمہ کی اذیت بھری چیخیں سن کر میں لرز گیا۔ قریب تھا کہ دیوانہ وار آواز کی سمت بھاگ اٹھتا محمد شریف نے اشارے سے مجھے منع کیا۔ چیخیں مسلسل آرہی تھیں۔ میں نے بے چینی سے محمد شریف کی طرف دیکھا۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’فاروق! مجھے ان ظالم،وں سے بچاؤ۔۔۔فاروق! مجھے ان درندوں سے بچاؤ یہ میری عزت لوٹنا چاہتے ہیں اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں خودکشی کر لوں گی‘‘ صائمہ مسلسل چیخ چیخ کر مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔
میں بار بار محمد شریف کی طرف دیکھتا لیکن اس نے مسلسل انگلی ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی۔ وہ کچھ پڑھ رہا تھا۔ صائمہ کی چیخیں میرے صبر کا امتحان لے رہی تھیں۔ میرا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اس کی مدد کے لیے بھاگ پڑوں۔ دل پر پتھر رکھے کھڑا رہا۔ صائمہ مسلسل میری منتیں کر رہی تھی۔
’’فاروق ! اگر تم میری مدد کے لیے نہ آئے تو سچ کہہ رہی ہوں میں اپنی جان دے دوں گی۔ ان بدبختوں نے میرے کپڑے اتار دیے ہیں اگر تم نے مجھے ان سے نہ بچایا تو مرنے کے بعد بھی میں تمہیں معاف نہ کروں گی۔‘‘ صائمہ چیخ رہی تھی۔فریاد کر رہی تھی۔
آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ محمد شریف میری کیفیت بھانپ گیا اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ اس نے آنکھیں نکال کر مجھے تنبیہہ کی کہ میں اس حرکت سے باز رہوں لیکن صائمہ کی پکارنے مجھے دیوانہ کر دیا تھامیں مسلسل زور لگاتا رہا۔ محمد شریف نے میری طرف دیکھا اور دروازے پر پھونک مار دی۔ اس کے ساتھ ہی چیخیں بند ہوگئیں۔
’’خان بھائی! یہ سب دھوکہ ہے، یہ آواز صائمہ بہن کی نہیں ان کم بختوں کی چال ہے۔ وہ میرا وظیفہ خراب کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ دروازہ نہ کھل سکے۔ اگر آپ جانے لگتے تو میں ضرور وظیفہ توڑ کر آپ کو روکتا اور یہی وہ بدبخت چاہتے تھے۔ وہ جانتے ہیں اگر میں نے پڑھائی مکمل کر لی تو دروازہ کھل جائے گا۔یہ دیکھیں‘‘ اس نے دروازے کو دھکیلا۔ وہ زبردست چرچراہٹ سے کھل گیا۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ تھاما اور بسم اللہ پڑھ کر اندر قدم رکھ دیا۔ میں نے بھی اس کی تقلید کی۔ دروازے کے آگے نہایت پیش قیمت حریریں پردہ پڑا ہوا تھا جیسے ہی محمد شریف نے پردہ ہٹایا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کمرہ تھا یا کسی بادشاہ کی پرتعیش خوابگاہ۔ قصے کہانیوں میں اس قسم کی خوابگاہوں کا تذکرہ پڑھا تھا۔
وسیع و عریض خوابگاہ کے بیچوں بیچ ایک بیش قیمت لکڑی کی جہازی سائز کی مسہری موجود تھی جس کے گرد باریک پردے لٹکے ہوئے تھے۔ نہایت مسحور کن خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ کمرہ پوری طرح روشن تھا لیکن روشنی کا مخرج نگاہوں سے پوشیدہ تھا۔ میں چاروں طرف آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔ حیرت سے میری زبان گنگ تھی۔ میں نے قدم بڑھایا تو جیسے ریشم میں دھنس گیا۔ فرش پر نہایت ملائم اور دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ محمدشریف نے ہاتھ سے پکڑکر مجھے روک دیا۔ میں نے مسہری پر نظر ڈالی۔ ریشمی باریک پردوں کے پیچھے کسی کی موجودگی ظاہر ہو رہی تھی۔ محمد شریف نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک چھڑی نکالی اور اسے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر چاروں طرف گھمایا۔ وہ مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ اچانک پردے ایک طرف سرکنا شروع ہوگئے۔ اندر کا منظر سامنے آتے ہی میرے آنکھیں پھٹ گئیں۔ مسہری پر شہزادوں جیسا لباس پہنے سر پر ہیروں کا تاج رکھے پرتاب نیم دراز تھا۔ وہی پرتاب جسے رادھا نے بسنتی کو لانے کا حکم دیا تھا اور وہ اپنی جان پر کھیل کر اسے لے آیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ ساتھ سونے والی شخصیت پر نظر پڑتے ہی میرے خون میں ابال آگیا۔ رگوں میں خون کے بجائے لاوا دوڑنے لگا۔ اس بدبخت کے پہلو میں صائمہ دراز تھی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)