ڈپٹی کمشنر کو کہا ہر حال میں ملاقات کرنی ہے، ضروری ہو تو گرفتار کر لیں، رات بھر گپ شپ رہی،… پھر قاضی صاحب سکھر چلے گئے

 ڈپٹی کمشنر کو کہا ہر حال میں ملاقات کرنی ہے، ضروری ہو تو گرفتار کر لیں، رات ...
 ڈپٹی کمشنر کو کہا ہر حال میں ملاقات کرنی ہے، ضروری ہو تو گرفتار کر لیں، رات بھر گپ شپ رہی،… پھر قاضی صاحب سکھر چلے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:25
اس تقریب کے بعد دو تین روز بھٹو لندن میں مقیم رہے۔ اس دوران مظہر قاضی کے ساتھ میں بھی بھٹو صاحب کو ملتا رہا۔ بھٹو صاحب کی کتاب ”مِتھ آف انڈی پینڈینس“ چھپ گئی تھی۔ میں بھی پاکستان آنے کے بعد ساہیوال میں وکالت کرنے میں مصروف ہو گیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مظہر قاضی، بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری مقرر ہو گئے ہیں۔ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں بھٹو مغربی پاکستان اور شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان میں اکثریتی پارٹیوں کے لیڈر بن گئے۔ ملک دو لخت ہو گیا۔ بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ ان تفصیلات کا جائزہ اگلے کسی باب میں لیں گے۔ یہاں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بیرسٹر مظہر قاضی مجھے بھولے نہیں۔ اُن دنوں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے۔ البتہ لینڈ لائن ٹیلی فون پر ہی بات ممکن ہو سکتی تھی۔ مظہر قاضی مجھ سے رابطہ کرتے رہے مگر مجھے ایک تو سیاست سے کوئی زیادہ دلچسی نہیں تھی، دوسرا یہ کہ میں پہلے ایک کامیاب اور کامران قانون دان بننا چاہتا تھا۔ مظہر قاضی ایک دفعہ اسلام آباد سے بذریعہ سڑک لاڑکانہ جا رہے تھے۔ میں مقدمہ کے سلسلہ میں شہر سے باہر تھا ہماری ملاقات ہی نہیں ہو سکی۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب ساہیوال کے دورہ پر آئے تو مجھے مظہر قاضی کا پیغام ملا کہ آ کر ملوں مگر وہاں سیکیورٹی کے ایسے انتظامات تھے کہ میں گھبرا کر گھر آ گیا۔ مگر داد دیجئے مظہر قاضی کو کہ وہ دوسری دفعہ ساہیوال تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر کو انہوں نے کہا کہ بشیر احمد مجاہد ایڈووکیٹ کے ساتھ ہر حال میں ملاقات کرنی ہے۔ اگر ضروری ہو تو اُنہیں گرفتار کر لیں۔ وہ میرے دوست ہیں۔ مجھے جب یہ پیغام ملا تو اُن کے ساتھ اُن کی بیگم میری(Merry) بھی تھی جس سے میری واقفیت لندن سے تھی۔ میں خود اُن کے پاس کینال ریسٹ ہاؤس چلا گیا۔ طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ رات بھر گپ شپ جاری رہی۔ سیاسی باتیں، پرانے دوستوں کا احوال…… وغیرہ وغیرہ…… اور پھر قاضی صاحب اگلے روز سکھر چلے گئے۔
مظہر قاضی دوست تھے…… انہوں نے دوستی نبھائی۔ میری کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی کہ میں اس کی فرمائش کرتا۔ اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس تھا۔ کوئی ایسی خواہش بھی نہیں تھی کہ کسی سے سوال کرتا۔ میری تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی پوری ہوتی رہی ہیں۔ میری وکالت خوب چل رہی تھی۔ مجھے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا کہا گیا۔ میں نے پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت سے اپنے پرانے مراسم کی بنیاد پر ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ مظہر قاضی کے ساتھ اس کے بعد بھی طویل عرصہ رابطہ رہا اور مظہر قاضی ایک بہت ہی دیانت دار اور ایماندار شخصیت کے طور پر یاد رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے اقتدار سے وابستگی کے زمانہ میں بہت صاف ستھرے کردار و عمل کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ بھٹو سے علیٰحدہ ہوئے تو بھی اُن سے ملنے جلنے والے اُن سے ملتے رہتے۔ بھٹو اُنہیں کوئی مزید سیاسی ذمہ داری دینا چاہتے تھے مگر مظہر قاضی نے کہا کہ میں آزادی سے کھلے ماحول میں وکالت کرنا چاہتا ہوں اور وہ اپنے پیشہ میں باوقار انداز میں واپس آ گئے۔ کافی عرصہ بعد میں کراچی گیا اور ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اُن پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ اپنی غیر ملکی بیوی بچوں کو لے کر انگلینڈ چلے گئے تھے اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آ گئے اور پھر اُن کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی بیوی انگریز تھی جو اُن کے بچوں کو لے کر وہیں مقیم ہو گئی۔ کچھ عرصہ ہوا اقبال حیدر جو پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئے،پاکستان کے وزیر قانون بھی رہے اور ہیومن رائٹس کے بڑے داعی تھے، وہ بھی وفات پا گئے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -