فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر573
میاں احسان پاکستان آگئے مگر نسیم بانو نے اپنی فلمی مصروفیات جاری رکھیں۔ ۱۹۵۱ء میں فلمستان کی فلم ’’شبستان‘‘ ریلیز ہوئی جس میں ہیرو کا کردار شیام نے ادا کیا تھا۔ وہ پاکستان ٹی وی کی معروف اداکارہ، پروڈیوسر اور ہدایت کار ساحرہ کاظمی کے والد تھے اور اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران میں شہسواری کرتے ہوئے گھوڑے سے گر کر دماغی چوٹ کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔
’’شبستان‘‘ ہیرو شیام کے بغیر ہی جیسے تیسے مکمل کی گئی تھی۔ اسے زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ شیام اس وقت کے مقبول اور کامیاب ہیرو تھے۔ ممکن ہے اگر یہ فلم ان کی موجودگی میں مکمل ہوتی تو شاید اس کا انجام کچھ اور ہوتا۔
اس سے پہلے نسیم بانو نے محبوب خان کی فلم ’’انوکھی‘‘ میں کام کیا تھا جو ایک سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے موسیقار نوشاد اور گیت نگار شکیل بدایونی تھے۔ نسیم بانو کے ساتھ سریندر نے ہیرو کا کردار کیا تھا۔ یہ محبوب صاحب کی اچھی اور یادگار فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس فلم میں پہلی بار ریلوے کا خادثہ کسی انڈین فلم میں بڑی ہنر مندی سے فلما کر پیش کیا گیا تھا اور فلم بینوں نے اسے بات سراہا تھا۔ اس فلم کے اداکاروں میں ککو(رقاصہ) مراد ، پریم ادیب، بدھو ایڈوانی وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس کی موسیقی سدا بہار تھی۔ چند گانے شاید آج بھی آپ کو یاد ہوں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر572 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۱۔ کبھی دل دل سے ٹکراتا تو ہوگا
انہیں میرا خیال آتا ہوگا
۲۔جلے نہ کیوں پروانہ
شمع دکھا کر حسن کے جلوے بنا دیں جب دیوانہ
جلے نہ کیوں پروانہ
۳۔ بھولنے والے یاد نہ
بھولنے والے یاد نہ آ
دیکھ ہمیں مجبور نہ کر
اپنی قسم دکھ دور نہ کر
ہم تو جئے بس تیرے لیے
تو نے کچھ ایسے زخم دیے
ٹھیس لگی دل ٹوٹ گیا
بھولنے والے یاد نہ آ۔۔۔
نوشاد کی موسیقی اور محبوب کی ہدایت کاری نے اس فلم میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس کے سبھی گانے سپرہٹ ہوئے تھے۔ نسیم بانو کو اس فلم سے ایک نئی فلمی زندگی ملی تھی۔
۱۹۴۹ء میں تاج محل پکچرز کی فلم ’’چاندنی رات‘‘ نے بھی بہت کامیابی حاسل کی تھی۔ اس طرح ان کی ناکامیوں کا دور ختم ہوگیا تھا۔ ’’چاندنی رات‘‘ کے فلم ساز اور ہدایت کار میاں احسان تھے۔ خوش قسمتی سے یہ بھی سپرہٹ فلم تھی۔ اس طرح نسیم بانو نے کامیاب فلموں کا ہیٹ ٹرک مکمل کرلیا تھا۔ اس فلم کے موسیقار بھی نوشاد تھے اور گیت نگار شکیل بدایونی تھے جو عام طور پر نوشاد صاحب کے ساتھ نغمہ نگاری کرتے تھے۔ اس فلم کی موسیقی بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔ شیام اس کے ہیرو تھے۔ الیاس، جلو بائی اور ککو بھی اس کے اداکاروں میں شامل تھے۔
۱۹۵۰ء میں خدا خدا کرکے سہراب مودی نسیم بانو کو اپنی فلم ’’شیش محل‘‘ میں کاسٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ نسیم بانو نے دس سال کے طویل عرصے کے بعد سہراب مودی کی فلم میں کام کیا تھا۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار سہراب مودی اور موسیقار وسنت ڈیسائی تھے۔ اداکاروں میں نسیم بانو کے ساتھ سہراب مودی، نگار سلطانہ، اسے شاہ شکار پوری، مبارک اور پران اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ یہ نسیم بانو کی کامیابیوں کا دور تھا اس لیے یہ فلم بھی سپرہٹ ہوگئی۔
۱۹۵۲ء میں نسیم بانو کی فلم ’’بے تاب‘‘ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار ہربنس اور موسیقار ایس ڈی باتش تھے۔ نسیم بانو کے ساتھ اشوک کمار ہیرو کے کردار میں پیش کئے گئے تھے۔ موتی لال، گیتا بالی اور مراد جیسے بڑے فنکار بھی اس فلم کے اداکاروں میں شامل تھے۔ یہ اوسط درجے کی فلم تھی۔
۱۹۵۲ء ہی میں نسیم بانو کی فلم ’’سند باد دی سیلر‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس یے ہدایت کار نانا بھائی بھٹ تھے۔ چتر گیت اس کے موسیقار تھے۔ رنجن اس فلم میں ہیرو تھے۔ یہ فلم کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی کاست میں نروپا رائے ، شکیلہ ، بھگوان اور پران قابل ذکر ہیں۔ یہ ایک تصوارتی اور ایکشن فلم تھی۔
۱۹۵۳ء میں نسیم بانو کی فلم ’’باغی‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اننت ٹھاکر اس کے ہدایت کار تھے۔ موسیقی مدن موہن کی تھی۔ اس کے فلم ساز دلیپ کمار کے بڑے بھائی ایوب خان تھے۔ یہ فلم بھی زیادہ کامیابی نہیں حاصل کر سکی۔
اس فلم کے بعد کئی سال گزر گئے۔ یوں لگتا تھا جیسے نسیم بانو نے اداکاری ترک کر دی ہے لیکن چار سال کے وقفے کے بعد ان کی فلم ’’نوشیرواں‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس کے فلم ساز و ہدایت کار سہراب مودی تھے۔ سی را مچندر نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ ایک کاسٹیوم فلم تھی۔ سہراب مودی کے علاوہ مراد، بپن گیتا، مراد، آغا وغیرہ اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ خلاف توقع یہ ایک سپر فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی نمائش ۱۹۵۷ء میں ہوئی تھی۔ یہ نسیم بانو کی آخری فلم بھی ثابت ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کسی فلم میں کام نہیں کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کی فلمی اداکاری کا آغاز بھی سہراب مودی کی فلم سے ہوا تھا اور انجام بھی ان ہی کی فلم سے ہوا تھا۔ اس کے بعد فلم بینوں نے پری چہرہ نسیم بانو کو کبھی اسکرین پر نہیں دیکھا۔ ان کا انتقال ۲۰۰۲ء میں ہوا۔ اس طرح وہ قریب قریب ۴۵ سال تک فلموں سے کنارہ کش رہیں۔ انہیں فلمی تقریبات وغیرہ میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ وہ ایک خاموش اور پرائیویٹ زندگی گزارتی رہیں۔
پری چہرہ نسیم بانو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ کوئی بھی انسان ہمیشہ زندہ نہیں رہتا مگر اپنی خوشگوار یا ناخوشگوار یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ نسیم بانو جب تک زندہ رہیں ان کا جب بھی تذکرہ کیا گیا پری چہرہ نسیم کے ساتھ ہی کیا گیا۔ بمبئی کی فلمی دنیا میں رہ کر بھی وہ ایک پروقار اور الگ تھلگ زندگی گزارتی رہیں۔ ان کے زمانہ عروج میں کئی بار بڑے لوگوں کے ساتھ ان کا نام منسوب کیا گیا جسے اسکینڈلز بھی کہا جا سکتا ہے مگر انہوں نے وضع داری اور رکھ رکھاؤ کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ میاں احسان سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد انہوں نے دوسری شادی بھی نہیں کی۔
نسیم بانو نے ایک تہذیب ہافتہ اور شائستہ ماں کی نگرانی میں زندگی بسر کی تھی۔ طبعاً بھی وہ انتہائی شائستہ، با اخلاق اور باوقار خاتون تھیں۔ انہیں دیکھ کر ان سے مل کر اور ان کی گفتگو سن کر یوں لگتا تھا جیسے کسی شاہی خاندان کے چشم و چراغ سے مل رہے ہیں۔ ان کی ذات میں ایک عجیب سی تمکنت اور شاہانہ انداز تھا اس اعتبار سے وہ عام ایکٹریسوں سے یکسر مختلف تھیں۔
ان کے کردار کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے کبھی غیر شائستہ ملبوسات نہ تو ذاتی زندگی میں پہنے اور نہ ہی فلموں میں۔ طور طریقوں اور آداب محفل کے لحاظ سے وہ منفرد تھیں۔ ذاتی زندگی میں وہ بہت سادگی پسند تھیں۔ عام اور سادہ لباس زیب تن کرتی تھیں۔ بھڑکیلے، قیمتی ملبوسات اور زیورات سے انہیں دلچسپی نہیں تھی۔ حالانکہ ایک اندازے کے مطابق وہ انتہائی بیش قیمت زیورات اور جواہرات کی مالک تھیں۔ دیکھنے والوں کو وہ ایک عام، سادہ گھریلو خاتون معلوم ہوتی تھیں جسے اپنی شہرت، مقبولیت، دولت مندی اور حسن کا قطعی احساس نہ ہو ۔ وہ کسی تکلف کے بغیر گفتگو کرتی تھیں لیکن ہر ایک کے ساتھ بے تکلف ہونا توکیا ملاقات کرنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں لیکن اس میں کسی غرور کا دخل نہیں تھا۔ ان کی سادگی کا اظہار ان کے گھر کو دیکھ کر ہو جاتا تھا۔ انتہائی دولت مند ہونے کے باوجود ان کا گھر نسبتاً سادہ تھا حالانکہ ثریا جیسی ادکارہ نے شاہانہ انداز میں رہائش اختیار کی تھی اور ان کے فلیٹ میں دروازوں کے ہینڈل بھی سونے کے تھے۔ ذاتی زندگی میں نسیم بانو میک اپ بھی نہیں کرتی تھیں۔ یہ رویہ انہوں نے آخر دم تک نبھایا۔ شاید انہیں احساس تھا کہ ان کا ملکوتی حسن کسی میک اپ کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے ملبوسات کو ردوبدل اور ترمیم کے ساتھ دوبارہ قابل استعمال بنا لیتی تھیں۔ خوشبو سے انہیں والہانہ لگاؤ تھا۔ بہترین اور بیش قیمت خوشبو استعمال کرتی تھیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر انہیں عبور ھاصل تھا۔ ان کی والدہ نے انہیں گلوکاری سکھانے کی بہت کوشش کی مگر سریلی آواز نہ ہونے کی وجہ سے وہ گلوکارہ نہ بن سکیں۔ رات کو سونے سے پہلے قرآن شریف کی تلاوت ان کے معمول میں داخل تھی۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر574 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں