فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر572
اداکاری میں مسلسل ناکامیوں کے باوجود نسیم بانو کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ میاں احسان کے ساتھ ان کی شادی شدہ زندگی اطمینان سے گزر رہی تھی۔ دولت، شہرت اور مقبولیت کی کوئی کمی نہ تھی۔ غرض یہ کہ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ ان کی آخرالذکردونوں فلمیں درگا ہ نپیکچرز کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ درگاہ دیوی کانام بھی ان فلموں کو کامیاب نہیں کراسکا تھا۔
تاج پیکچرز کا ادارہ ابھی تک قائم تھا لیکن باقاعدگی سے فلم سازی نہیں کی جا رہی تھی۔ ۱۹۴۷ء میں تاج محل پیکچرز اپنی تیسری فلم ’’ملاقات‘‘ بنائی۔ اس کے ہدایت کار اور مصنف منشی دل تھے۔ کھیم چندر پرکاش جیسے نامور موسیقار نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اداکاروں میں نسیم بانو اور پریم ادیب نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ شاہ نواز اورممتاز بھی اس کے نمایاں اداکار تھے۔ ’’ملاقات ‘‘ کو بھی متوقع پذیرائی اور کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر571 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس دوران میں پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے انتظامات شروع ہو چکے تھے۔ میاں احسان اور نسیم بانو کے مابین اختلافات کا آغاز بھی اسی نکتے سے ہوا تھا کہ میاں احسان اپنے وطن واپس آنے کے خواہش مند تھے۔ میاں احسان کے والد خان بہادر محمد سلیمان چیف انجینئر کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ بہت دولت مند اور بارسوخ آدمی تھے۔ میاں احسان ان کے لاڈلے بیٹے تھے اس لیے وہ ان کی کوئی خواہش نہیں ٹالتے تھے۔ وہ نسیم بانو سے شادی کے حق میں نہ تھے لیکن بیٹے کی خواہش کے آگے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے اور میاں احسان کو شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
لیکن اس شادی سے پہلے راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہوگئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ نسیم بانو کے مہربانوں میں ریاست حیدر آباد دکن کے ولی عہد شہزادہ معظم جاہ بھی شامل تھے اور نسیم بانو کے ہاں ان کی کافی آمد و رفت تھی۔ اس زمانے میں نسیم بانو کا نام کئی اور دولت مند اور بااثر لوگوں کے ساتھ بھی منسوب ہوا تھا لیکن فلمی پریس کے محدود ہونے کی وجہ سے اسکینڈلز نہ بن سکے۔ شہزادہ معظم جاہ کی دلچسپی کے حوالے سے البتہ خبریں شائع ہوتی رہیںَ شہزادہ معظم جاہ ایک بہتبڑی ریاست بلکہ سلطنت کے ولی عہد اور دنیا کے دولت مند ترین انسان کے فرزند تھے۔ شاہی کروفر بھی رکھتے تھے۔ شخصیت بھی شان دار تھی۔ ان کے اصرار پر ایک بار نسیم بانو اپنی والدی کے ہمراہ حیدر آباد چلی گئیں جہاں عظیم الشان محل میں ان کے قیام کا اہتمام کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جہاں دیدہ شمشاد بیگم نے محسوس کیا کہ حیدر آباد جا کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ وہ ایک ایسا سنہری پنجرہ تھا جس سے نجات حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ شہزادے کی مرضی کے خلاف پتا تک نہیں ہل سکتا تھا اس لیے ان کی اجازت کے بغیر حیدر آباد کو خیرباد کہنا بھی ممکن نہ تھا۔ بہرحال شمشاد بیگم نے کسی طریقے سے حیدر آباد سے باہر نکلنے کی کامیابی حاصل کر لی اور اطمینان کا سانس لیا کہ ایک بہت بڑے جنجال سے جان چھوٹ گئی۔
نسیم بانو نے ریاست حیدر آباد سے واپس بمبئی پہنچ کر دوبارہ آزادی کی فضا میں سانس لیا۔ بہرحال اسے نسیم بانو کی خوش قسمتی ہی سمجھئے کہ وہ اس وبال سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ورنہ شاید اس سنہری قفس سے کبھی باہر نہ نکل سکتیں۔
حیدر آباد سے واپسی پر ہی میاں احسان نے ایک بار پھر شادی کی خواہش ظاہر کی اور نسیم بانو نے اس شرط پر کہ انہیں فلموں میں کام کرنے کی آزادی ہوگی میاں احسان سے شادی کر لی۔ میاں احسان نے ان کے شوق کی خاطر ہی تاج محل پکچرز بنا کر فلم سازی کا پروگرام شروع کیا تھا۔
جب تقسیم ملک کے ہنگاموں کا آغاز ہوا تو میاں احسان اور نسیم بانو کے مابین پہلی بار شدید قسم کے اختلافات پیدا ہوگئے اور بالآخر یہی اختلاف ان دونوں کی علیحدگی کا سبب بن گیا۔ نسیم بانو کسی قیمت پر بمبئی چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں۔ شوہر کو چھوڑنا انہیں منظور تھا۔ اس طرح میاں احسان بیوی بچوں کو چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ نسیم بانو شاید صرف ایک بار پاکستان آئی تھیں وہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ بہت مختصر قیام کے لیے ۔ البتہ دلیپ کمار کی بیگم کی حیثیت سے سائر بانو اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آچکی ہیں۔ میاں احسان نے نسیم بانو سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کافی غور و خوض اور تاخیر کے بعد کیا تھا۔ جب وہ قطعی مایوس ہوگئے تو علیحدگی کا فیصلہ کیا اور پاکستان واپس آگئے۔
تاج محل پکچرز نے جو آخری فلم بنائی اس کا نام ’’عجیب لڑکی‘‘ تھا۔ اس کے فلم ساز اور ہدایت کار میاں احسان تھے۔ انہوں نے پہلی بار ہدیات کاری کا تجربہ کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی غلام محمد نے بنائی تھی۔رحمان اس فلم کے ہیرو تھے۔ ششی کلا، آغا شیام کمار اور جنیت بھی اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اس فلم کی ناکامی ان دونوں کے تعلقات کی ڈوبتی کشتی کے لیے آخری تنکا ثابت ہوئی۔
میاں احسان نے پاکستان کا رخ کیا اور اپنے بیوی بچے بمبئی کے حوالے کر آئے۔ پاکستان آکر انہوں نے لاہور میں رہائش اختیار کی تھی اور یہاں جیل رود پر ایک سینما بھی بنایا تھا مگر پھر سب کچھ فروخت کرکے کراچی چلے گئے۔ کراچی میں بھی انہوں نے تین سنیما گھر بنائے۔ ان میں سے کتنے اب باقی ہیں اس کی تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے۔
لاہور میں میاں احسان صاحب سے ہماری چند ملاقاتیں ہوئیں۔ نہایت خوش اخلاق، شائستہ اور حسین آدمی تھے۔ ان سے زیادہ ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا مگر ان چند ملاقاتوں کا تاثر آج تک باقی ہے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر573 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں