فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر571

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر571
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر571

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس کے بعد ’’طلاق‘‘ کے نام سے فلم نمائش پذیر ہوئی۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے یہ ایک معاشرتی اور اصلاحی موضوع تھا۔ سہراب مودی اس کے صرف فلم ساز و ہدایت کار تھے۔ نسیم بانو کے ساتھ جاگیردار شیلا اور پریم ادیب اس کے مرکزی کردار تھے۔ میر صاحب نے اس کی موسیقی بنائی تھی۔ میر صاحب کو آج زمانہ بھول گیا مگر وہ اپنے عہد کے نامور اور ممتاز موسیقار تھے۔ فلم ’’پکار‘ کی موسیقی بھی انہوں نے ہی مرتب کی تھی۔ اس فلم میں نسیم بانو نے بھی (اس زمانے کے رواج کے مطابق) اپنے گانے بذات خود گائے تھے۔ ان کا گایا ہوا ایک نغمہ ہمیں اس وقت سے آج تک یاد ہے ۔ منظر یہ ہے کہ وہ محل میں ایک ساز لیے بیٹھی ہیں اور گا رہی ہیں ۔ گانے کے بول یہ تھے۔
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
شکل و صورت کی رعنائی اور دلکشی اپنی جگہ مگر گلوکارہ کی حیثیت سے وہ اتنی کامیاب نہ تھیں۔ سیدھی سادی طرزوں میں گانے گایا کرتی تھیں۔ اس زمانے کے سادہ لوح فلم بینوں کے لیے یہی بہت اچھے نغمات تھے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر570 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’طلاق‘‘ بھی بہت کامیاب فلم تھی۔اسکے بعد سہراب مودی نے ایک بار پھر تھیٹریکل انداز کے موضوع پر فلم ’’میٹھا زہر‘‘ بنائی۔ اس فلم میں نسیم بانو کے ساتھ سہراب مودی ہیرو تھے۔ جاگیردار اور صادق علی بھی اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اگلی فلم ’’بسنتی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار کے ایم عثمانی تھے۔ یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی لیکن اس کے بعد آنے والی فلم ’’پکار‘‘ ہنوستان کی فلمی صنعت میں یادگار اور تاریخ ساز ثابت ہوئی۔ اس فلم کے اداکاروں میں نسیم بانو کے ساتھ چندر موہن ہیرو تھے۔ سہراب مودی،سردار اختر(جو بعد میں محبوب صاحب کی بیگم بن گئی تھیں) صادق علی بھی شامل تھے۔ موسیقی میر صاحب نے ترتیب دی تھی۔ ’’پکار‘‘ کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ فلم ساز ہدایت کار اور اداکار کی حیثیت سے یہ سہراب مودی کا بہت بڑا ناقابل فراموش کارنامہ تھا۔ اس فلم نے انڈیا کی فلمی صنعت کو ایک نیا راستہ دکھایا تھا۔ یہ فلم ۱۹۳۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس نے کامیابی اور مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے یہ اپنی مثال آپ تھی۔
اس فلم کے ساتھ ہی منرو اور موویٹون کے ساتھ نسیم بانو کے معاہدے کی مدت پوری ہوگئی تھی۔ سہراب مودی ایک نیا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے فلم ساز منہ مانگا معاوضہ دے کر نسیم بانو کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔ ’’پکار‘‘ کی نمائش کے بعد نسیم بانو ایک ماورائی ہستی بن چکی تھیں۔ بڑے بڑے رئیس ، شہزادے اور دولت مند انہیں تحائف پیش کرکے ان کی نظر عنایت کے محتاج تھے۔ محاورے کے مطابق نسیم بانو پر ہن برس رہا تھا۔ دولت تھی کہ سمیٹنے میں نہیں آتی تھی۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہ تھا۔
نسیم بانو نے کسی بھی فلم ساز کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور ایک نئے فلم ساز ادارے کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس کمپنی نے ’’تاج محل‘‘ اور ’’قلوپطرہ‘‘ کے نام سے دو فلموں کا آغاز کیا لیکن کوئی بھی فلم مکمل نہ ہو سکی اور یہ کمپنی بند ہوگئی۔ اگر یہ دونوں فلمیں ڈھنگ سے بن جاتیں تو ’’پکار‘‘ کی نور جہاں کے بعد تاج محل کی ملکہ ممتاز محل اور مصرف کی ملکہ قلوپطرہ بھی نسیم بانو کی پہچان بن جاتیں مگر قدرت کو منظور نہ تھا۔ یہ ایک معما تھا کہ ملک کے مایہ ناز فلم سازوں کو ٹھکرا کر انہوں نے ایک نئے فلم ساز ادارے کی فلموں میں کام کرنا کیوں قبول کر لیا تھا۔ اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
انہی دنوں نسیم بانو کا اپنے اسکول کے ساتھی میاں احسان کے ساتھ بہت میل جول ہوگیا تھا۔ میاں احسان بھی ایک خوب صورت ، وجیہہ اور دولت مند نوجوان تھے۔ بچپن کی دوستی اب محبت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ بہت ممکن ہے کہ فلم سازوں کی طرف سے رخ پھیر لینے میں اس محبت اور میاں احسان کی رائے کا بھی دخل ہو۔ ان دونوں کی محبت بالآخر شادی پر منتج ہوئی۔ میاں احسان اور نسیم بانو کے دو بچے ہیں۔ ایک سائرہ بانو اور دوسرے سلطان خاں۔ یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ سلطان خاں بھی میاں احسان ہی کی اولاد ہیں۔ کیونکہ ان کے نام سے اس بات کا اظہار نہیں ہوتا۔ بہرحال۔ میاں احسان سے نسیم بانو کی شادی ان کی پہلی اور آخری شادی ثابت ہوئی۔ علیحدگی کے بعد بھی انہوں نے دوسری شادی نہیں کی حالانکہ ان کے سامنے والیان ریاست کے رشتے بھی پیش کئے گئے تھے۔
نسیم بانو اور میاں احسان نے تاج محل پیکچرز کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بنا کر فلم سازی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس ادارے کی پہلی فلم ’’اجالا‘‘ تھی۔ اس کے ہدایت کار کے ایم عثمانی اور موسیقار خان مستانہ تھے۔ پرتھوی راج نسیم بانو کے بالمقابل ہیرو تھے۔ اس کے اداکاروں میں مرزا مشرف مبارک بھی شامل تھے۔ مصنف کمال امروہی تھے۔ یہ فلم ۱۹۴۲ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ کم از کم ’’پکار‘‘ کے مقابلے میں تو اسے ناکام ہی کہا جا سکتا ہے گویا یہ نیا سفر نسیم بانو کے لیے اداکارہ کی حیثیت سے کامیاب ثابت نہیں ہوا تھا۔
فلمستان لمیٹڈ نے نسیم بانو کو اپنی فلم ’’چل چل رے نوجوان‘‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی جو انہوں نے منظور کر لی۔ اس فلم میں نسیم بانو نے پہلی بار اشوک کمار کے ساتھ کام کیا تھا اور اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ رفیق غزنوی اور جگدیش سیٹھی بھی اس کی کاسٹ میں شامل تھے۔ اتنی بڑی کاسٹ اور کریڈٹ کے باوجود ’’چل چل رے نوجوان‘‘ ہٹ فلم نہیں تھی۔
تاج محل پیکچرز کی دوسری فلم ’’بیگم‘‘ تھی۔ اس فلم کے مرکزی کردار نسیم بانو اور اشوک کمار تھے۔ یہ فلم بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ خدا جانے یہ سہراب مودی کی آہ تھی یا کسی فقیر کی بددعا کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم بانو کی کسی فلم کو اس کے عشر عشیر بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ سہراب مودی آخر دم تک نسیم بانو کو اپنی فلموں میں کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے مگر دونوں کے ستارے اس کے بعد نہ مل سکے۔ سہراب مودی نے اس کے بعد ’’پکار‘‘ کے تجربے کو دہرانے کی غرض سے کئی پرانے دور سے تعلق رکھنے والی فلمیں بنائیں مگر وہ بات نہ پیدا ہو سکی۔ اداکارہ مہتاب سے شادی کرنے کے بعد انہوں نے بہت بڑے پیمانے پر تاریخی فلم ’’جھانسی کی رانی‘‘ بنائی تھی جو رنگین تھی۔ اس فلم کے لیے سہراب مودی نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ ان کی زندگی کی بہترین اور یادگار فلم تھی مگر تمام تر شان و شکوہ اور ماہرانہ ہنر مندی کے باوجود ’’جھانسی کی رانی‘‘ بری طرح فلاپ ہوگئی۔ یہ سہراب مودی کے لیے بہت بڑا دھچکا اور صدمہ تھا۔ انہوں نے اپنا سب کچھ اس فلم کی تکمیل پر لگا دیا تھا۔ اس کی ناکامی کے بعد وہ پھر سنبھل نہ سکے۔ اور نہ ہی دوبارہ وہ مقام حاصل کرسکے جو انہیں فلم ساز و ہدایت کار کی حیثیت سے انڈیا کی فلمی صنعت میں حاصل تھا۔
اس بارے میں ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ سہراب مودی نے تمام زندگی بھر مجرد رہنے کا عہد کیا تھا مگر مہتاب سے شادی کرکے انہوں نے یہ قسم توڑ دی جس کا کفارہ انہیں مسلسل ناکامیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑا ۔ واللہ اعلم بالصواب! اگر یہ کہا جائے کہ سہراب مودی اور نسیم بانو کو پھر کبھی ’’پکار‘‘ جیسا عروج حاصل نہ ہو سکا تو غلط نہ ہوگا۔
اگر سہراب مودی اپنے کھوئے ہوئے مقام کی تلاش میں ناکام رہے تھے تو نسیم بانو کے فلمی کیرئیر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ انہوں نے اداکاری بہت کم کر دی تھی۔ ایک طویل عرصے بعد ۱۹۴۶ء میں ان کی دو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ان میں سے ایک ’’دور چلیں‘‘ تھی اور دوسری ’’میرا گیت‘‘ ان دونوں فلموں کے نام تک کسی کویاد نہیں ہیں جس سے ان کی کامیابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر572 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں