فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر574
نسیم بانو اور میاں احسان نے اپنے دونوں بچوں کی تعلیم کو بہت اہمیت دی تھی۔ وہ صرف ایک بار اپنی بیٹی سائرہ بانو کے ساتھ پاکستان آئی تھیں۔ ان کا مختصر قیام کراچی میں رہا لیکن میڈم نور جہاں بذات خود انہیں لینے کے لیے کراچی پہنچ گئیں اور لاہور میں انہیں اپنا ذاتی مہمان بنا کر رکھا۔ یہ ان کا پاکستان کا پہلا اور آخری دورہ تھا جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے۔
نسیم بانو کو انگریزی اور اردو زبانیں آتی تھیں۔ انہیں مطالعے کا بھی شوق تھا۔ جس زمانے میں انہوں نے کانو ینٹ سے میٹرک پاس کیا تھا اس وقت ان کا تعلیمی معیار آج کے ایم اے پاس لوگوں سے بھی زیادہ بلند تھا۔ وہ اردو اور انگریزی روانی سے بولتی تھیں۔ میاں احسان بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ باپ کے فرزند اوربذات خود۔۔۔اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ وہ لندن سے انڈسٹریل کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر آئے تھے یہی وجہ ہے کہ دونوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی تھی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر573 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سائرہ بانو نے بمبئی کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہیں سوئزر لینڈ بھیج دیا گیا تھا جب وہ سوئزر لینڈ سے واپس آئیں تو ان کے والد اور خود نسیم بانو کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔ حسن و جمال کے حوالے سے انہوں نے بھی بہت شہرت حاصل کی تھی۔ اگرچہ نسیم بانو کے مقابلے میں ان کا حسن ماند تھا۔ سوئزرلینڈ میں رہ کر وہ بہت زیادہ آزاد خیال ہوگئی تھیں اس لیے فلموں میں انہوں نے کافی قابل اعتراض ملبوسات پہنے جن کا ان کی ماں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ آزاد روی کے باعث ان کے اسکینڈلز بھی بنتے رہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ نسیم بانو کے اصرار پر ہی دلیپ کمار نے سائرہ بانو سے شادی کی تھی تاکہ انہیں مزید اسکینڈلز اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ شادی بہت کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ اس دوران میں حیدر آباد کی ایک شادی شدہ خاتون عاصمہ کے ساتھ دلیپ کمار کی خفیہ شادی کا اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا دلیپ کمار اس سے منکر تھے مگر عاصمہ کے پاس دستاویزی ثبوت موجود تھے۔ بہرحال یہ قصہ بھی ختم ہوگیا اور سائرہ اور دلیپ کمار کی شادی محفوظ رہی اور آج بھی انہیں ایک کامیاب ترین فلمی جوڑا تصور کیا جاتاہے۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو اولاد سے محروم ہیں۔ زیادہ میل ملاپ اور تقریبات میں جانا بھی انہیں پسند نہیں ہے۔ اس لیے ان کی سماجی زندگی نسیم بانو کے گھر آمد و رفت تک ہی محدود رہی ہے۔
نسیم بانو طویل عرصے تک صاحب فراش رہنے کے بعد ۱۹ جون ۲۰۰۲ ء کو دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اتنے طویل عرصے کے بعد وہ فلم بینوں اور عام لوگوں کے لیے گمنام ہو چکی تھیں۔ البتہ دلیپ کمار اور سائرہ بانو کے حوالے سے ان کا ذکر گاہے بگاہے سننے میں آجاتا تھا۔
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پہناں ہوگئیں
پری چہرہ نسیم بھی انہی صورتوں میں سے ایک صورت تھیں۔ رہے نام اللہ کا۔
پری چہرہ نسیم بانو کا اصل نام روشن آرا تھا۔ان کے بارے میں لکھتے ہوئے یکایک ایک روشنی سی جگمگائی اور ایک اور روشن آرا کا خیال آگیا بلکہ یاد تازہ ہوگئی۔
اگرنسیم بانو کو مغنی صاحب نے کمرشل ضرورتوں کے تحت پری چہرہ کا لقب دے کر متعارف کرایا تھا اور وہ اسم بامسمی ثابت ہوئیں تو یہ ایک اور بات ہے لیکن ہم جن روشن آرا بیگم کی یاد تازہ کرنے جا رہے ہیں انہیں کسی ایک شخص یا ادارے نے نہیں بلکہ موسیقی کے اساتذہ اور نامور معتبر نقادوں نے اتفاق رائے سے ’’ملکہ موسیقی‘‘ کا نام دیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ درحقیقت وہ موسیقی کی ملکہ تھیں۔ میڈیم نور جہاں کو ملکہ ترنم کا اعزازان کے بعد حاصل ہوا تھا۔ یوں بھی یہ دونوں ہستیاں اپنے فن میں یگانہ ہونے کے باوجود دو الگ الگ دنیاؤں کی حکمراں تھیں۔ ملکہ ترنم کو کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ استاد بڑے غلام علی خاں کی مایہ ناز شاگرد تھیں لیکن انہوں نے ابتدا ہی سے اپنے لیے ہلکی پھلکی فلمی موسیقی اور غزل کا میدان چن لیا تھا۔ اگر وہ بھی روشن آرا بیگم کی طرح محض کلاسیکی موسیقی پر توجہ دیتیں تو اس وقت موسیقی کی دو ملکائیں یعنی ایک میان میں دو تلواریں موجود ہوتیں۔
ملکہ موسیقی کو بجا طور پر برصغیر کے موسیقاروں اور استادوں نے یہ خطاب عنایت کیا تھا۔ وہ ہر طرح اس کی مستحق تھیں۔ کیا آواز تھی اور کس غضب کی گائیکی ۔۔۔
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
جب وہ نغمہ سرا ہوتی تھیں تو شعلے لپکتے ہی رہتے تھے لیکن یہ شعلے جلا کر خاکستر کرنے والے نہیں دلوں اور روح و ذہن کو ٹھنڈک اور سکون پہنچانے والے تھے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر575 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں