منکر نکیر مرنے کے بعد حساب مانگتے ہیں اور انکم ٹیکس والے مرنے سے پہلے...(کنہیا لال کپور کی طنز و مزاح سے بھرپور تحریر )
قسط:1
منکر نکیر اور محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹروں میں یہی فرق ہے کہ منکر نکیر مرنے کے بعد حساب مانگتے ہیں اور موخر الذکر مرنے سے پہلے۔بلکہ یہ کہ منکر نکیر صرف ایک بار مانگتے ہیں اور انکم ٹیکس کے انسپکٹر بار بار نیز یہ کہ منکر نکیر گناہوں کا حساب لیتے وقت ثواب کو نظر انداز نہیں کرتے مگر انکم ٹیکس تجویز کرنے والے صرف گناہوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، ثواب سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ آمدنی کو گناہ میں اشتراکیوں کی اصطلاح میں کہہ رہا ہوں۔ ملاحظہ ہو ایک اشتراکی فلاسفر کا نظریہ کہ”تمام صاحب جائیداد چور ہیں۔“
ادھر مارچ کا مہینہ آیا ادھر ان کے پیام آنے شروع ہو ئے کہ صاحب ایک ہفتے کے اندر اندر آمدنی کا نقشہ پر کر کے دفتر میں بھیج دیجئے۔ ورنہ آپ پر زیر دفعہ ”فلاں“ مقدمہ چلایا جائے گا۔ اسے کہتے ہیں مفت خوری اور سینہ زوری۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ صاحب جب ہم سارا دن دفتر میں پنسل گھساتے تھے، افسروں کی جھڑکیاں سہتے تھے، سپرنٹنڈنٹوں کے ناز اٹھاتے تھے اس وقت آپ کہاں تھے۔ کبھی پھوٹے منہ سے یہ نہ کہا، ”لاؤ ان رقموں کی میزان میں کردوں، یا اس فائل سے میں نپٹ لوں گا۔“ اور جب پیسوں کامنہ دیکھنا نصیب ہوا تو آپ آ دھمکے اور لگے رعب جمانے کہ ہمارا حصہ لاؤ۔ اگر عاجزی سے مانگیں تو کوئی عیب نہیں کہ راہ خدا ہم غریبوں کو بھی دو ”ہے ملی گر تم کو ثروت چند روز۔“
مگر یہاں تو اس کروفر سے مطالبہ کیا جاتا ہے گویا ہم کماتے ہی ان کے لئے ہیں او یہ بیوی بچوں کا قصہ تو گویا الف لیلہ کی داستان ہے۔ مگر صرف مطالبے پر ہی معاملہ ختم نہیں ہو جاتا، آمدنی کا نقشہ پر کرنے کے بعد ایک دن دفتر میں بھی تشریف لائیے تاکہ اندراج کی تصدیق کی جا سکے۔ اور جب آپ اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے وہاں جاتے ہیں تو آپ کی کیا گت بنائی جاتی ہے؟ بر آمدے میں جہاں آپ کو گھنٹوں انتظار کرنا ہے، کوئی بینچ یا کرسی نہیں۔ دوسرے جتنا عرصہ آپ بر آمد ے میں کھڑے رہتے ہیں دفتر میں کام کرنے والے بابو اور چپڑاسی آپ کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتے ہیں گویا آپ جیل سے بھاگے ہوئے مجرم ہیں۔ مگر سب سے بڑی کوفت یہ کہ محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر اپنے آپ کو فرعون یا کم از کم ہٹلر سے کم نہیں سمجھتے، اس لئے جب آپ جھک کر سلام بجالاتے ہیں تو وہ یا تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں یا پھر سگار کا دھواں آپ کے منہ کی طرف چھوڑتے ہوئے آ پ پر یوں نگاہ غلط انداز ڈالتے ہیں جیسے آپ انسان نہیں بلکہ رینگنے والے کیڑے اور اس کے بعد گستاخانہ استفسارات کا سلسلہ۔
”یہ نقشہ آپ نے پر کیا ہے“
”جی ہاں“
”آپ ہی کا نام ہے دین دیال“
”جی ہاں“
(جاری ہے )
"برج بانو " سے اقتباس